افغانستان ، طالبان نے 2 ضلعی ہیڈکواٹرز پر قبضہ کر لیا، 46 افغان اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

مختلف کارروائیوں کے دوران20افغان پولیس اہلکار ہلاک ،متعدد زخمی ، طالبان کے فرضی ضلعی سربراہ سمیت 21جنگجو مارے گئے ، داعش نے اپنے 3 کمانڈروں کو پھانسی دیدی ،گزشتہ روز اغواء ہونے والے 30 لاپتا دیہاتیوں کی تلاش جاری ننگرہار میں نماز جنازہ پرڈرون حملہ، متعدد افراد ہلاک اور زخمی

اتوار 23 جولائی 2017 18:30

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 جولائی2017ء) افغانستان میں طالبان نے دو ضلعی ہیڈکواٹرز پر قبضہ کر لیاجبکہ مختلف کارروائیوں کے دوران20پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ طالبان کے فرضی ضلعی سربراہ سمیت 21جنگجو مارے گئے ،طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز کے 46 اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے تاہم آزادانہ ذرائع سے اس دعوی کی تصدیق نہیں کی جا سکی،ادھر داعش نے اپنے 3 کمانڈروں کو پھانسی دیدی ،مشرقی صوبہ ننگرہار میں نماز جنازہ پر امریکی ڈرون حملے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے،دوسری جانب افغان پولیس کی جانب سے 30 لاپتا دیہاتیوں کی تلاش جاری ہے ۔

اتوار کو امریکی اورافغان میڈیا کے مطابق افغانستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوں نے گزشتہ دو روز کے دوران دو ضلعی ہیڈ کواٹرز پر قبضہ کر لیا جس میں مغربی صوبے غور کا ایک ضلعی صدر مقام بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

صوبہ غور کے پولیس سربراہ محمد مصطفی محسنی کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف جاری مختلف کارروائیوں کے دوران افغان پولیس کی8 اہلکار ہلاک ہو گئے جنھوں نے ملک کے شمال اور مغرب میں اپنی عسکری کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

محسنی نے کہا کہ طالبان نے صوبہ غور کے تیوارا ضلع کے صدر مقام پر اتوار کی صبح چار حملے کیے اور ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی ر استہ نہیں تھا۔انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکار ضلعی صدر مقام سے آٹھ کلومیٹر دور موجود ہیں اور وہ جوابی حملے کرنے سے پہلے کمک پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں۔طالبان نے میڈیا کے نام جاری ایک بیان میں تیوارا ضلع پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بیان میں افغان سکیورٹی فورسز کی 46 اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن آزادانہ ذرائع سے اس دعوی کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔شمالی صوبے فریاب کے پولیس سربراہ کے ترجمان عبدل کریم یورش نے کہا کہ لولاش ضلع میں دو پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب طالبان عسکریت پسندوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضلعی صدر مقام پر حملہ کر کے ایک کمپانڈ میں واقع پولیس ہیڈکواٹرز کی عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔

حالیہ دنوں میں طالبان جنگجوں نے شمالی افغانستان میں درجنوں حملے کیے اور انہوں نے دارالحکومت کابل اور شمالی افغانستان کو جوڑے والی ایک شاہراہ کو بھی عارضی طور پر بند کر دیا۔ادھر جنوبی صوبہ قندھار میں مختلف پرتشدد واقعات میں 12پولیس اہلکار اور 21طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے ۔صوبائی پولیس کے ترجمان ضیاء درانی نے بتایا ہے کہ ہفتے کی رات گیارہ بجے سینکڑوں طالبان عسکریت پسندوں نے ضلع نش میں سیکورٹی پوسٹوں پر حملہ کردیا جس کے بعد دونوں جانب سے شدید جھڑپیں شرو ع ہوگئیں اوراضافی فوجی دستے علاقے میں پہنچ گئے ۔

جھڑپوں میں 15شدت پسند اور 4پولیس اہلکار ہلاک اور 20طالبان اور 6سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے تاہم ایک ذرائع نے پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی تعداد 12بتائی ہے جبکہ متعدد اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔دریں اثناء سیکورٹی فورسز کے مشترکہ آپریشن کے دوران طالبان کے فرضی ضلعی سربراہ سمیت 6جنگجو ہلاک ہوگئے جبکہ ایک کو گرفتار کرلیا گیا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی تین چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے او ر25سیکورٹی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

مشرقی صوبہ ننگرہار میں نماز جنازہ پر امریکی ڈرون حملے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون حملہ ضلع ہیسکا مینا میں کیا گیا۔ضلعی انتظامیہ کے سربراہ سازولی شنواری نے ڈرون حملے کی تصدیق کی ہے ۔داعش نے شمالی صوبہ جائوزجان میں اپنے تین کمانڈروں کو پھانسی دیدی۔واقعہ ضلع کوس ٹاپا کے علاقے میں پیش آیا جہاں گروپ کے جنگجو سرگرم ہیں۔

صوبائی گورنر کے ترجمان محمد رضا غفوری نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں کو حکومت کے ساتھ تعلق کے الزام میں پھانسی دی گئی ۔عسکریت پسندوں کی لاشیں ضلع کوس ٹاپا کے علاقے آلاملیک سے ملی ہیں۔دوسر ی جانب افغان پولیس ان30 دیہاتیوں کی تلاش میں مصروف ہے، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر انہیں طالبان عسکریت پسند اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

قندھار صوبے کے جنوب میں جمعے کے روز عسکریت پسندوں نے قریب ستر دیہاتیوں کو یرغمال بنا لیا تھا، جن میں سے 7 کی لاشیں ایک ہائی وے کے قریب پائی گئی تھیں۔ لاپتہ افراد میں سے 30 کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا، تاہم بقیہ30 مغویوں کے بارے میں کوئی معلومات میسر نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر ان دیہاتیوں کو کابل حکومت کے ساتھ مشتبہ تعاون کے الزام میں یرغمال بنایا گیا۔