سٹیٹ بنک کا شرح سود کو 5.75فیصدکی سطح پرپر برقرار رکھنے کا فیصلہ

قومی معیشت وسعت کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، پچھلے مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں5.7صد اورخدمات کے شعبے میں چھ فیصداضافہ ہوا، تعمیرات کے شعبے میں بھی نمایاں بہتری آئی، رواں سال افراط زر کی شرح چاراعشاریہ پانچ سے پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ہے، قوزی(کور) مہنگائی اپریل 2017ء سے 5.5 فیصد پر رکی ہوئی ہے، عالمی پیش گوئیاں مثبت منظرنامہ پیش کررہی ہیں اور نمو اور بین الاقوامی طلب دونوں مالی سال 2017-18 میں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں، سی پیک سے متعلق سرگرمیوں کے تسلسل اور بہتر ہوتی ہوئی معاشی نمو کے باعث درآمدات میں بھی اضافے کی توقع ہے گورنر سٹیٹ بنک طارق باجوہ کی پریس کانفرنس

ہفتہ 22 جولائی 2017 17:12

سٹیٹ بنک کا شرح سود کو 5.75فیصدکی سطح پرپر برقرار رکھنے کا فیصلہ
کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جولائی2017ء) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود کو 5.75فیصدکی سطح پرپر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، قومی معیشت وسعت کے مرحلے سے گزر رہی ہے ، پچھلے مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں5.7صد اورخدمات کے شعبے میں چھ فیصداضافہ ہوا، تعمیرات کے شعبے میں بھی نمایاں بہتری آئی، رواں سال افراط زر کی شرح چاراعشاریہ پانچ سے پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ہے، قوزی(کور) مہنگائی اپریل 2017ء سے 5.5 فیصد پر رکی ہوئی ہے، عالمی پیش گوئیاں مثبت منظرنامہ پیش کررہی ہیں اور نمو اور بین الاقوامی طلب دونوں مالی سال 2017-18 میں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں، سی پیک سے متعلق سرگرمیوں کے تسلسل اور بہتر ہوتی ہوئی معاشی نمو کے باعث درآمدات میں بھی اضافے کی توقع ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار گورنرسٹیٹ بنک طارق باجوہ نے یہاں پریس کانفرنس میں نئی زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ گورنرسٹیٹ بنک نے کہاکہ مالی سال2017-18کے آغاز میں پاکستانی معیشت کے تین پہلو نمایاں ہیں۔ اوّل، اوسط عمومی مہنگائی ، گو کہ مالی سال 17ء سے زیادہ ہے تاہم گذشتہ اندازے سے کم رہنے کی توقع ہے اور یہ 6.0 فیصد ہدف سے نیچے رہے گی، اس کی بڑی وجہ رسد کے سازگار حالات ہیں، دوم، ملکی طلب مزید بڑھے گی جیسا کہ حقیقی شعبے میں موجودہ نمو، نجی شعبے کو قرضے اور درآمدات سے ظاہر ہے۔

سوم، بیرونی محاذ پر برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر دونوں کی ناقص کارکردگی نے حسابات جاریہ کے خسارے کو سخت متاثر کیا ہے جو مالی سال2016-17 میں 12.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا, تاہم فی الحال مالی سال2017-18 میں مجموعی توازن ادائیگی قابو میں رہنے کی امید ہی, اس تجزیے کا انحصار مالی کھاتے میں مسلسل متوقع رقوم کی آمد اور عالمی نمو میں بہتری پرہے۔

پہلے دو پہلو ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت توسیعی مرحلے میں ہے جبکہ تیسرا پہلو توازن ادائیگی کے حوالے سے قلیل مدت چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے۔گورنرسٹیٹ بنک نے کہاکہ عام آدمی کیلئے قیمتوں کے حساس اشاریے کے رجحانات پر مزید غور سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2017ء میں عمومی مہنگائی (سالانہ ) کم ہوکر 3.9 فیصد ہوگئی ہے جبکہ قوزی(کور) مہنگائی اپریل 2017ء سے 5.5 فیصد پر رکی ہوئی ہے جس سے بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی ہوتی ہے، تاہم چھ ماہ بعد مہنگائی کی توقعات میں کسی قدر کمی، جس کا اظہار جولائی 2017ء کے آئی بی اے ایس بی پی اعتماد ِصارف سروے سے ہوتا ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ توقعات معقول طور پر قابو میں ہیں، اسلئے اسٹیٹ بینک نے مالی سال2017-18کے لیے اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کی پیش گوئی 4.5 سے 5.5 فیصد کی حدود میں رکھی ہے۔

اس پیش گوئی کی وضاحت تیل کی عالمی قیمتوں میں توقع سے کم اضافے، جون 2017ئ میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کے حالیہ رویے، مستحکم انتظامی قیمتوں اور مہنگائی کی کم توقعات سے ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ حقیقی شعبے کا جائزہ لیا جائے تو بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی مجموعی (سال بسال) نمو کے مئی 2017ء تک کے اعدادوشمار ایک مستحکم اور مثبت رفتار کی عکاسی کرتے ہیں جس میں غذا (خصوصاً شکر)، فولاد، سیمنٹ، گاڑیوں، برقی مصنوعات اور دوا سازی کے شعبے آگے آگے نظر آتے ہیں، درحقیقت جولائی تا مئی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی نمو 5.7 فیصد ہے جو گذشتہ سال اسی مدت کے دوران 3.4 فیصد رہی تھی، اس کے علاوہ زرعی شعبے کی پیداوار بھی مالی سال 12015-16 سے کہیں بہتر رہی ہے اور اس نے مالی سال 17ئ میں اپنا ہدف 3.5 فیصد پورا کر لیاہے، اس کارکردگی کی وضاحت پیداواری عوامل کی بہتر رسد، جس نے تمام اہم فصلوں کی پیداوار پر مثبت اثر ڈالا، اور گنّے کی زیرِ کاشت اراضی میں اضافے سے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ مالی سال 17ء میں خدمات کے شعبے کی نمو 6.0 فیصد رہی جو مالی سال 2016 میں 5.5 فیصد رہی تھی، امید ہی کہ یہ مثبت تبدیلیاں مالی سال 2017-18 میں مزید مستحکم ہوں گی۔ گورنرسٹیٹ بنک نے کہاکہ جہاں تک بازارِ زر کا تعلق ہے ،بازار کی لیکویڈیٹی (سیالیت) نجی شعبے سے قرضے کی مضبوط طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی تھی، درحقیقت مالی سرگرمیوں کے بڑھنے، بینک ڈپازٹس میں خاصا اضافے اور کم شرح سود کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرضوں کا بہاو مالی سال2016-17 میں ایک دہائی کی بلند ترین سطح 748 ارب روپے تک جا پہنچاجبکہ مالی سال 16ئ میں یہ 446 ارب روپے تھا, یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ مالی سال 17ئ کے دوران معینہ سرمایہ کاری اور جاری سرمائے کے قرضوں میں بالترتیب 258.5 ارب روپے اور 360.5 ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ سال ان میں بالترتیب 171.7 ارب روپے اور219.3 ارب روپے اضافہ ہوا تھا۔

گورنرسٹیٹ بنک نے کہاکہ کنزیومرفنانسنگ( صارفی مالکاری) کی طلب بھی، خاص طور پر کار اور ذاتی قرضوں کے لیے، مالی سال 17ء کے دوران بڑھ گئی۔ حقیقی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یہ رجحانات مالی سال 18ئ میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے ۔بیرونی محاذ پر مالی سال2016-17 کے دوران جاری حسابات کا خسارہ 12.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ مالی سال 17ئ میں ایک جانب برآمدات اور کارکنان کی ترسیلاتِ زر میں کمی ہوئی تو دوسری طرف درآمدات میں 17.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔

اس کی بنیادی وجہ سی پیک اور نان سی پیک دونوں کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے مشینری کی درآمدات ہیں، جبکہ شعبہ ٹیکسٹائل کے لیے موجودہ برآمدی پیکیج کے تحت پلانٹس کی استعداد میں اضافے کے خاطر کی جانے والی درآمدات نے بھی دباو میں اضافہ کیا، تاہم پچھلے چار ماہ کی کی کارکردگی کے پیش نظر برآمدات میں کمی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ جاری حسابات کے خسارے پر زرمبادلہ کے ذخائر اور مالی کھاتے میں فاضل رقم کے ذریعے قابو پایا گیا، جو مالی سال 17ء میں 9.6 ارب ڈالر ہوگئی جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران اس کا حجم 6.8 ارب ڈالرتھا، اس رقم میں سرکاری رقوم کی آمد میں اضافے کے علاوہ سی پیک منصوبوں کے لیے نجی شعبے کی قرض گیری میں اضافے کا اثر بھی شامل ہے، ان حالات کی بنا پر زرمبادلہ کے ذخائر مالی سال 17ء کے اختتام پر کم ہوکر 16.1 ارب ڈالر ہوگئے جبکہ مالی سال 16ء میں 18.1 ارب ڈالر تھے۔

انہوں نے کہاکہ عالمی پیش گوئیاں مثبت منظرنامہ پیش کررہی ہیں اور نمو اور بین الاقوامی طلب دونوں مالی سال 2017-18 میں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں، اس تجزیے اور اس کے ہمراہ مثبت ملکی پالیسی اقدامات کی وجہ سے توقع ہے کہ پاکستانی برآمدات کو فائدہ ہوگا۔ دوسری جانب سی پیک سے متعلق سرگرمیوں کے تسلسل اور بہتر ہوتی ہوئی معاشی نمو کے باعث درآمدات میں بھی اضافے کی توقع ہے گو کہ یہ اضافہ سست رفتاری سے ہوگا۔

اگرچہ یہ امر غیر یقینی ہے کہ ترسیلاتِ زر میں بہت جلد مثبت اضافہ ہوگا تاہم بیرونی کھاتے کے استحکام اور وسیع پیمانے پر زرِمبادلہ کے ذخائر کا جمع ہونا مالی سال 18 میں میزانی دو فریقی اور مالی رقوم کی بروقت آمد پر بھی منحصر ہے۔گورنرسٹیٹ بنک نے کہاکہ تفصیلی سوچ بچار کے بعد اور نمو کی مسلسل رفتار کے مضبوط امکان، محدود مہنگائی اور بیرونی محاذ کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 5.75فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :