پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے انتخابی بل 2017 پر دستخط کر دیئے ،

اس نئے انتخابی قانون کو آئندہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا ،نئے انتخابی قانون میںالیکشن کمیشن کو مکمل با اختیار بنانے ،ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنے ، قومی اسمبلی کے امیدوار کے لئے انتخابی اخراجات بڑھا کر چالیس لاکھ اور صوبائی حلقے کے لئے بیس لاکھ روپے کرنے ، انتخابی عملے کا تقرر الیکشن سی60روز پہلے کرنے اور انتخابی قانون کی پاسداری کا حلف دینے کی پابندی لگائی گئی ہے کمیٹی کے چیئرمین سینٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی کے ایک سو انیسویں اجلاس میں انتخابی قانون کے مسودے پر دستخط کیے گئے، اجلاس کے بعد وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار اور وزیر قانون زاہد حامد کی بریفنگ

جمعہ 21 جولائی 2017 16:42

پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے انتخابی بل 2017 پر دستخط کر دیئے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جولائی2017ء) پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے انتخابی بل 2017 پر دستخط کر دیئے ہیں،اس نئے انتخابی قانون کو آئندہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ نئے انتخابی قانون میںالیکشن کمیشن کو مکمل با اختیار بنانے ،ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنے ، قومی اسمبلی کے امیدوار کے لئے انتخابی اخراجات بڑھا کر چالیس لاکھ اور صوبائی حلقے کے لئے بیس لاکھ روپے کرنے ، انتخابی عملے کا تقرر الیکشن سی60روز پہلے کرنے اور انتخابی قانون کی پاسداری کا حلف دینے کی پابندی لگائی گئی ہے ۔

جمعہ کو پارلیمنٹ ہاوس میں کمیٹی کے چیئرمین سینٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی کا ایک سو انیسواں اجلاس منعقد ہوا جس میں انتخابی قانون کے مسودے پر دستخط کیے گئے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں کمیٹی کے ممبران آفتاب احمد خان شیرپائو، اعجازالحق، نعیمہ کشورخان، عبدالقادر ودان، ستارہ ایاز، کرنل طاہر حسین مشہدی، ایس اے اقبال قادری، انوشہ رحمن، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، مشاہد اللہ خان، سلیم ضیاء، اور دیگر نے شرکت کی ۔

اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار اور وزر قانون زاہد حامد نے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے یہ کام اٹھارویں ترمیم سے اگر بڑا نہیں تو کم بھی نہیںانتخابی قوانین کو یکجا کرکے ایک قانون میں ضم کر دیا گیا ہے جسے فوری طورپر قومی اسمبلی اور سینٹ کے آئندہ اجلاسوں میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا ، تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمشنر کو ہٹاکر نئے ممبران نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اور نگران سیٹ اپ پر اعترضات اٹھائے گئے یہ کام آئینی ترمیم سے متعلق ہے ، باقی تمام رپورٹ پر تمام جماعتیں متفق ہیں ہم نے ان کے اختلافی نوٹ کو اس رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔

ذیلی کمیٹی کے کنوینئر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ چالیس سال بعد انتخابی اصلاحات ہو رہی ہیں اس کام میں تقریباً ڈھائی سال لگے ، ارکان پارلیمنٹ ،سول سوسائٹی ، بار کونسلز، وکلاء اور جنرل پبلک 1283 کی تجاویز موصول ہوئیں پہلے ڈرافٹ رپورٹ کے بعد دوبارہ تجاویز مانگی گئیں انہوں نے کہا کہ بائیو میٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حق کی ہماری بھی خواہش تھی اس کے لئے قائم ذیلی کمیٹی کی سفارش پر بیرون ملک مشنز میں ٹیلی فون سسٹم پوسٹل بیلٹ سسٹم کے ذریعے ووٹ کے استعمال کے تجربات کرائے گئے لیکن کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا ، اس پر ذیلی کمیٹی کئی اجلاس ہوئے ۔

الیکشن کمیشن نے 400 بایو میٹرک مشینیں خریدیں پی ٹی آئی کے ممبران کی کئی تجاویز سے ہم نے اتفاق کیا۔انہوں نے کہا کہ آخری اجلاس میں شرکت کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان کا واک آئوٹ افسوسناک ہے ۔انہوں نے انتخابی قانون کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کے 15 باب ہیں الیکشن کمیشن کا اس میں بڑا تعاون رہا ہر باب کے ساتھ ایک ذیلی باب بھی ہے جس میں اس کے رولز موجود ہیں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتظامی مالی اور قانونی اعتبارسے مکمل با اختیار بنانے کی تجویز دی گئی ہے ، پہلے انتخابی اخراجات کے لئے اسے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی اب الیکشن کمیشن کو اپنے اخراجات کی علاوہ اپنا الیکشن پلان بھی بنانے کا اختیار ہوگا انتخابی حلقہ بندیاں ہر مردم شماری کے بعد کرائی جائیں گی حلقوں کے درمیان دس فیصد سے زائد ووٹوں کے تناسب میں فرق نہیں ہوگا ، نئے ووٹ کی رجسٹریشن نئے کمپوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے اجراء کے ساتھ ہی از خود ہوجائے گی ،ووٹرز کی تصاویر والی انتخابی فہرستیں امیدواروں کو فراہم کی جائیںگی انتخابی عملہ پولنگ سے 60دن قبل تعینات کیا جائے گا جو پہلی بار الیکشن کمیشن کے قواعد کی پابندی کا حلف دے گا، ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ اسٹیشن کا فاصلہ ایک کلو میٹر ہوگا ، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لئے ایک ہی طرز کے کاغذات نامزدگی فارم ہوں گے ،قومی اسمبلی کے لئے کاغذات نامزدگی فیس 30ہزار، صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے لئے 20ہزار ہو گی ، امیدوار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران اپنے واجب الادا قرضے ، یوٹلیٹی بلز اور ٹیکس ادا کرنے بارے تفصیلات کی فراہمی کا پابند ہوگا ۔

بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا طریقہ کار بھی وضع کر دیا گیا ہے اب اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی ملک بھر کے لئے یکسان طریقہ کار کے تحت ہو گی جس کاریٹرننگ افسران کے پاس نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہوگا ، جعلی (ٹنڈر ) ووٹ ڈالے جانے کی صورت میں اس کی فرانزک تفتیش کرائی جائے گی اور اس کی نادرا سے نشاندہی کر واکرسزا دی جائے گی ۔ریٹرنگ افسرفوری طور پر عبوری رزلٹ تیار کر ے گا اور حتمی نتائج کا تین روز میں اعلان کیا جائے گا عبوری رزلٹ میں پریذائڈنگ افسران اور امیدواروںکے پولنگ ایجنٹس کے دستخط بھی ہوں گے ، اگر ایک کامیاب امیدوار ہارنے امیدواروں کے درمیان پانچ فیصد سے زائد کا فرق ہوگا تو نتائج کے اعلان سے پہلے ریٹرنگ افسر حصہ لینے والے امیدواروں کی درخواست پر دوبارہ گنتی کرائے گا اگر دو امیدواروں کو برابر ووٹ پڑتے ہیں تو انہیں آدھی آدھی مدت دی جائیگی ۔

انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی حد پانچ لاکھ ہوگی انتخابی اخراجات کے لئے ڈسٹرکٹ مانٹرنگ ٹیمیں نگرانی کریں گی زائد اخراجات کرنے والے امیدوار کے خلاف براہ راست قانونی کارروائی کی جائے گی ، سالانہ مالی گوشوارے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت جمع کرائے جائیں گے اگر کوئی ممبر اس میں ناکام رہتا ہے تو 60روز بعد الیکشن کمیشن اس کی ممبر شپ معطل کر سکے گا۔

انتخابی عذرداریاں نمٹانے کے لئے ٹریبونلز کی مدت چارماہ مقرر کی گئی ہے ٹریبونلز میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی ایک امیدواربراہ راست انتخابی عذرداری الیکشن ٹریبونل میں دائر کر سکے گا ۔نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لئے کم سے کم دو ہزار ممبر اور دو لاکھ روپے رجسٹریشن فیس مقرر کی گئی، سیاسی جماعت کے لئے سالانہ مالیاتی گوشوارے اور ایک لاکھ سے زائد عطیہ کرنے والے ڈونرز کی فہرست جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے ، بلدیاتی حکومتوں کی حلقہ بندی الیکشن کمیشن کی جانب سے قائم حلقہ بندی کمیٹی کرے گی، نگران حکومت روزانہ کی بنیاد معمول کے کام اور غیر متنازعہ امور نمٹائے گی نگران حکومت فوری نوعیت کے معاملات کے علاوہ بڑے پالیسی فیصلے نہیں کر سکے گی ، ارکان پارلیمنٹ کی طرح نگران حکومت میں شامل افراد بھی الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے ، الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے سیاسی جماعتوں امیدواروں ، پولنگ ایجنٹس کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کرے گا میڈیا سیکیورٹی اہلکاروں اور انتخابی مبصرین کے لئے بھی ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے گا الیکشن کمیشن ملکی اور غیر ملکی مبصرین کو ایکریڈیٹیشن کارڈ جاری کرے گا ،خواتین کی انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے لئے عمومی نشستوں پر پانچ فیصدٹکٹ خواتین کو دینے کی سیاسی جماعتں پابند ہوں گی کسی حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد دس فیصد سے کم ہوئی تو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا کہ ایسا کسی معاہدے کی وجہ سے تو نہیں اگر ایسا ثابت ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن متعلقہ حلقے کے انتخاب کو کالعدم قراردے دیگا۔

خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت بڑھانے کے لئے میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی جائے گی ۔ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہاکہ انیس جولائی کو پارلیمانی کمیٹی کے آخری اجلاس میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر سعید غنی اور تحریک انصاف کے ممبران موجود تھے اور ان کے دستخط کمیٹی کی حاضری میں موجود ہیں ۔جن جماعتوں نے الیکشن قوانین بل 2017پر دستخط نہیں کئے سیکرٹریٹ ان سے رابطہ کر کے دستخط کروا لے گا تاہم یہ مرحلہ وار ہو تا ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھااگر دستحط نہیں بھی کرتے تو پارلیمانی رپورٹ حتمی ہے یہ اٹھارویں ترمیم کے مساوی کام ہے تمام قانونی تقاضے مکمل کئے گئے ہیں حکومت چاہتی تو وہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اپنا بل لا سکتی تھی زاہد حامد نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں کسی قانون پر اتنی مشاورت نہیں ہوئی جتنی اس قانون پر ہوئی ہے ۔

انوشہ رحمان نے کہاکہ ان اصلاحات کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ گزشتہ اسمبلی سے جاری تھا جس ذیلی کمیٹی میں دیگر جماعتوں کا ایک ممبر تھا وہاں تحریک انصاف کے تین تین ممبر ذیلی کمیٹی میں آتے تھے اور ان کا مئوقف آپس میں ہی نہیں ملتا تھا۔ انہوں نے کمیٹی کا وقت ضائع کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب دستوری ترامیم پر بات ہوگی تو آرٹیکل 62اور 63پر بھی غور ہو گا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ ایک جماعت کامئوقف یہ تھا کہ ضیاء الحق دور کے 62اور 63 کے آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم کو ختم کر کے اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔