پارلیمانی جماعتوں نے انتخابی قانون 2017ء کے بل پر دستخط کر دئیے

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںمیں بل متعارف کروا دیا جائے گا ، سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کی میڈیا سے بات چیت

جمعہ 21 جولائی 2017 15:12

پارلیمانی جماعتوں نے انتخابی قانون 2017ء کے بل پر دستخط کر دئیے
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 جولائی2017ء) حکومت اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں نے صاف شفاف منصفانہ وغیرجانبدارانہ انتخابات کیلئے مجوزہ انتخابی قانون 2017ء کے بل پر دستخط کر دئیے ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے آئندہ اجلاسوں میں بل متعارف کروا دیا جائے گا ، نگران حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو اور آئینی دفعات 63-62 میں ترامیم کا معاملہ التواء کا شکار ہو گیا ، انتخابی بل کی منظوری کے بعد پارلیمانی جماعتوں سے جامع آئینی پیکج پر مشاورت کا اعلان کیا گیا ہے۔

مجوزہ انتخابی قانون کے ساتھ متعلقہ قواعد و ضوابط کو بھی حتمی شکل دیدی گئی ، انتخابات کے دوران مس کنڈٹ میں ملوث انتخابی افسران کے خلاف فوری کارروائی ہو سکے گی۔

(جاری ہے)

انتخابی تنازعات کو غیر جانبداری سے نمٹانے کیلئے متعلقہ میکنزم کو تبدیل کر دیا گیا ، انتخابی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی الیکشن کمیشن کو فوری کارروائی کا اختیار دیدیا گیا ۔

جمعہ کو پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر اسحاق ڈار کی سربرہی میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں نے انتخابی بل کے مسودے پر دستخط کر دئیے۔ آئینی ترامیم موخر ہو گئی ہیں ، انتخابی مرکزی اور ذیلی کمیٹیوںکے 119 اجلاس ہوئے ۔ ان میں 94 اجلاس ذیلی ، 25 مرکزی کمیٹی کے اجلاس ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف 76 ، پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین 84 اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

بل پر دستخط کے بعد وزیر خزانہ پارلیمانی کمیٹی انتخابی اصلاحات کے چیئرمین سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے میڈیا کو بتایا کہ 8 انتخابی قوانین کو یکجا کر کے ایک جامع قانون کے مسودے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ہائوسز میں پیش کر دیا جائے گا۔ قوا عد و ضوابط کو بھی حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ انتخابی ایکٹ 2017ء کے نام سے موسوم ہو گا۔

مختلف جماعتوں کے اراکین نے چار اختلافی نوٹ تحریر کئے ہیں۔ بعض جماعتوں نے سیاسی جماعتوں کے انتخابی اخراجات کی حد سے اختلاف کیا ہے۔ اسحاق ڈر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نگران حکومت کے میکنزم کو تبدیل کرنا چاہتی ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کا اس بارے میں اختیار ہونا چاہیے۔ اس طرح انہوں نے موجودہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ کیا ہے جبکہ موجودہ چیف الیکسن کمشنر اور اراکین کی تقرری سے متعلق آئینی ترمیم کے لئے جوعبوری رپورٹ تیار کی گئی ہے اس میں تحریک انصاف بھی شامل تھی ۔

چیئرمین پارلیمانی انتخابی کمیٹی نے کہا کہ آئینی پیکج مستقبل میں آئے گا نئے انتخابی قانون کو چند ہفتوں میں پارلیمنٹ میں منظور کر لیں گے۔ آئینی ترامیم کیلئے وقت موجود ہے ان کا انتخابی قانون پر اثر نہیں ہو گا اس لئے اسے منظور کروانا چاہتے ہیں تسلسل سے کام ہوتا رہے گا۔ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کی کوشش کی جائے گی۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہا کہ تاریخی دن ہے ۔

40 سالوں کے بعد انتخابی اصلاحات ہو رہی ہیں ۔ مجموعی اور مکمل انتخابی سسٹم متعارف کروا رہے ہیں ۔ اڑھائی سال سے زائد عرصہ لگا ہے۔ انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال ، بیرون ملک پاکستانیز کے حق رائے دہی سے متعلق سسٹم کی ٹیسٹنگ کی گئی مگر مسائل موجود ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں کی سیکیورٹی اور راز داری برقرار رکھنے کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کو اس بارے میںدیدیا گیا ہے۔

ضمنی انتخابات کے دوران 400 مشییں خریدی گئیں اورپروجیکٹ کے تحت مسائل کی نشاندہی کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے بل کے مسودے سے اتفاق کیا ہے۔ تمام اجلاسو ں میں شریک ہونے کے بعد آخری اجلاس سے چلے جانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مجوزہ انتخابی قانون کے 15 باب ہیں ۔ انتخابی قواعد ہر باب کے ساتھ منسلک ہیں ۔ جامع انتخابی مینوئیل تیار کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی اور مالیاتی طورپر مکمل طور پر با اختیار بنا دیا گیا ہے۔ قواعد کی منظوری کیلئے کمیشن کو حکومت سے رابطے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مکمل انتظامی اختیار دیدیا گیا ہے۔ انتخابی افسران کے خلاف متعلقہ اداروں کی بجائے الیکشن کمیشن کسی بھی خلاف و رزی کی صورت میں کارروائی کر سکے گا۔ شفافیت کیلئے انتخابی نتائج کو الیکشن کمیشن فوری طور پر اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا پابند ہوگا دس فیصد سے زیادہ آبادی پر کوئی حلقہ مشتمل نہیں ہوگا کسی بھی شہری کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بننے پر خود بخود ووٹ کا اندراج بھی ہوجائے گا۔

امیدواروں کو ووٹرز کی تصاویر کے ساتھ انتخابی فہرستوں کی سافٹ اور ہارڈ دونوں کاپیاں دی جائیں گی۔ تمام انتخابی افسران حلف اٹھائیں گے کوئی بھی پولنگ سٹیشن ایک کلومیٹر سے زائد فاصلہ پر نہیں ہوگا انتخابات سے تیس دن قبل تمام پولنگ سٹیشنوں سے آگاہ کردیا جائے گا حساس پولنگ سٹیشنوں پر کلوز سرکٹ کیمرے لگیں گے قومی و وصبائی اور سینت کے انتخابات کے لئے امیدواروں کے یکساں کاغذات نامزدگی ہونگے فیس بڑھا دی گئی ہے بیلٹ پیپرز کے بارے میں ریٹرننگ افسران کے صوابدیدی اختیار کو ختم کردیا گیا ہے۔

کسی بھی پولنگ سٹیشن پر ووٹوں کی مقررہ تعداد سے زیادہ سے زیادہ سو مزید بیلٹ پیپرز چھپوائے جاسکیں گے جعلی ووٹ ڈالنے والوں کی فرانزک سسٹم کے تحت شناخت کی جائے گی اور سزائوں کا تعین کردیا گیا ہے۔ تمام پولنگ ایجنٹس بھی نتیجہ پر دستخط کرنے کے پابند ہونگے۔ اثاثوں و حسابات کے بارے میں غلط بیانی کرپٹ پریکٹس تصور ہوگی انتخابی تنازعات کی پیٹیشن کے ساتھ ثبوت اور شواہد مہیا کئے جائیں گے انتخابی ٹریبونل فریقین کی مشاورت سے ان پٹیشنز کو نمٹانے کیلئے مدت مقرر کرے گا روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔

نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے دو لاکھ کی فیس مقرر کردی گئی ہے۔ کسی بھی حلقے میں امیدواروں کے مساوی ووٹ پر قرعہ اندازی ہوگی دونوں امیدوار نصف نصف مدت کیلئے اسمبلی رکن رہ سکیں گے اور مدت کا تعین قرعہ اندازی سے ہوگا کہ پہلے کون ممبر بنے گا بیلٹ پیپرز کے لئے ٹمپرڈ سے محفوظ سیل بند بیگ ہونگے نگران حکومت پابند کیا جارہا ہے کہ وہ بڑی پالیسی سے متعلق کوئی فیلہ نہیں کرسکیں گے اس طرح متنازعہ امور سے بھی نگران حکومت دور رہے گی صرف اور صرف روزانہ کی بنیاد پر معمول کے فرائض انجام دے سکیں گی نگران حکومت کے ارکان بھی اثاثوں اور حسابات کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابند ہوں گی انتخابی آبزرور کے بارے میں قواعد ہونگے اس طرح سیاسی جماعتوں‘ سکیورٹی فورسز اور پولنگ ایجنٹس کے بارے میں ضابطہ اخلاق ہوگا ہوگا۔

قومی اسمبلی کیلئے تیس ہزار قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے بیس ہزار روپے کی فیس ہوگی قومی اسمبلی کے لئے چالیس لاکھ صوبائی اسمبلی کے لئے انتخابی اخراجات کی حد بیس لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ کسی بھی حلقہ میں خواتین کے دس فیصد ووٹ پڑنے پر نتیجہ کو کالعدم قرار دیا جاسکے گا سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابند ہوں گی سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ وقت 62-63 کی دفعات پر بات کرنے کا نہیں ہے ایک جماعت نے تو ضیاء الحق کے دور میں ان دفعات میں ہونے والی ترمیم کو مکمل طور پر منسوخ کرنے اور 1973 کے آئین کی یہ دفعات اصل شق میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔