پاناما کیس :فریقین کے دلائل مکمل ‘عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا-عدالت فیصلہ سناتے وقت وزیر اعظم کی نااہلی کے معاملے کو بھی ضرور دیکھے گی-سپریم کورٹ

سال سے ان ثبوتوں کا انتظارکررہے ہیں جن کا ذکر وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں کیا-جسٹس اعجازافضل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ‘اسحاق ڈار کا34سالہ ٹیکس ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا گیا- وکلاءکو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت-بچوں نے غلط کام کیا ہو تو والد پر اس کا اثر نہیں پڑتا-سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 21 جولائی 2017 10:16

پاناما کیس :فریقین کے دلائل مکمل ‘عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا-عدالت ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جولائی۔2017ء) سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر پانچویں روز سماعت ہوئی اور تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو بعد میں سنایا جائے گا۔سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ عدالت فیصلہ سناتے وقت وزیر اعظم کی نااہلی کے معاملے کو بھی ضرور دیکھے گی۔

عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلے سنانے کی حتمی تاریخ تو نہیں دی تاہم اس کا کہنا ہے کہ مناسب وقت پر ان درخواستوں پر فیصلہ سنایا جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکن بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت شروع کی تو قومی احتساب بیورو کے قائم مقام پراسکیوٹر جنرل اکبر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ نیب حکام حدیبیہ پیپرر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر بینچ کے سربراہ اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اس پر کب تک فیصلہ کر لیا جائے گا؟اکبر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں ایک ہفتے میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کا مقدمہ ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس فیصلے کو نیب حکام نے سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا تھا۔ اس مقدمے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے تھے اور تحریری بیان بھی دیا تھا جس کے بارے میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا تھا۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم قوم اور عدالت کی نظر میں صادق اور امین نہیں رہے اس لیے انھیں نااہل قرار دیا جائے۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی کی کمپنی کا اپنے انتخابی گوشواروں میں ذکر نہیں کیا جو کہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس پر بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا اثاثے ظاہر نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے یا الیکشن کمیشن کے پاس؟ جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اختیار تو الیکشن کمیشن کا ہی ہے لیکن وزیر اعظم کو نااہل کیے بغیر ٹرائل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آئین اور قانون کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتی اس لیے ان دونوں چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ کسی کے بنیادی حقوق کو روندا نہیں جائے گا اور عدالت درخواست گزاروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے گی۔عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے لیکن ان کی سفارشات سے متفق ہونا عدالت پر لازم نہیں ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ اور اس ٹیم پر لگائے گئے اعتراضات پر سپریم کورٹ نے کسی کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا ہے۔اس بارے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ نے ان اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ ضابط فوجداری کے تحت کی گئی تفتیش میں اعتراضات قابل قبول نہیں ہوتے اور وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف تفتیش ضابط فوجداری کے تحت ہی ہوئی ہے۔

قبل ازیںسپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عمل درآمد کیس کی پانچویں سماعت جسٹس اعجاز فضل خان کی سربراہی میں شروع ہوئی۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی درخواست پر جے آئی ٹی کا خفیہ رکھاگیا والیم نمبر10کھول دیا ہے-اعلی عدالت کی جانب سے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل جاری ہیں عدالت نے وکلاءکو ہدایت کی ہے کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کریں ۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نیب کا ذکر نہیں کر رہا میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس کیس کی جامع تحقیقات کروائی جائیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر دس کو کھولنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بھی درخواست کی۔

اس مو قع ہر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ والیم 10 کھولنے سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ لندن میں بہت سے ایسے وکلا ہیں جو ہفتہ اور اتوار کو بھی کام کرتے ہیں اور انھوں نے ایسے وکلا کی ایک فہرست بھی عدالت کو فراہم کی۔ جواب میں جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ سے پوچھا کہ کیا اس فہرست میں اس وکیل کا نام بھی شامل ہے جس نے اپ کی دستاویز تصدیق کی ہیں جس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا نہیں۔

سماعت سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل نے 34 سالہ ٹیکس ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ گزشتہ سماعت میں نیلسن اورنیسکول کے ٹرسٹ ڈیڈ پربات ہوئی تھی، عدالت کے ریمارکس تھے کہ بادی النظرمیں یہ جعلسازی کا کیس ہے اور اسی حوالے سے میں نے کل کہا تھا اسکی وضاحت ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اکرم شیخ نے کل کہا ہے کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی جو اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں بہت سے سولیسٹر ہفتہ بلکہ اتوار کو بھی کھلتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز سے پوچھا گیا کہ چھٹی کے روز ملاقات ہوسکتی ہے، حسین نواز نے کہا تھا کہ چھٹی کے روز اپوائنٹمنٹ نہیں ہوسکتی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام سوال کیا جائے تو جواب مختلف ہوگا مخصوص سوال نہیں کیا گیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 کے بارے میں جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دسویں جلد میں جے آئی ٹی کے خطوط کی تفصیل ہوگی اور دسویں جلد سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی جس کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ کاسربمہر والیم 10 عدالت میں پیش کردیا گیا، والیم 10 کی سیل عدالت میں کھول دی گئی اورعدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ خواجہ حارث یہ والیم آپکی درخواست پر کھولا جارہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا دستاویزات میں متعلقہ نوٹری پبلک کی تفصیل ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کا اکثر سولیسٹر سے رابطہ رہتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے نہیں کیا کہ انکا رابطہ سولیسٹر سے رہتا ہے، ان دستاویزات پر کسی کے دستخط بھی نہیں، کل عدالت کو بی وی آئی کا 16 جون کا خط موصول ہوا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آج سلمان اکرم راجہ نے اچھی تیاری کی، عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دے دی تاہم عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ ابھی والیم 10 کسی کو نہیں دکھائیں گے۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 23 جون کو جے آئی ٹی نے خط لکھا، جواب میں اٹارنی جنرل بی وی آئی نے خط لکھا۔ جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے، خطوط کو بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تسلیم نہیں کیا جا سکتا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیارہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کل عدالت نے کہا تھا کہ قطری نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکارکیا، میں نے تمام قطری خطوط کا جائزہ لیا جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کل جسٹس عظمت سعید نے پوچھا تھا کہ کیا آج قطری پیش ہونے کوتیارہیں۔وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکلین کو رقوم اپنے دادا شریف حسین اور والد نواز شریف سے ملیں۔

اور اگر میرے موکلین نے کوئی غلط کام بھی کیا ہے تو اس کا اثر فریق نمبر ایک یعنی وزیراعظم نواز شریف پر نہیں پڑتا۔ بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے اپنے ریماکس میں کہا کہ وزیراعظم نے قومی ا سمبلی میں کی جانے والی تقریر میں اپنے اثاثوں اور کاروبار کا ذکر کرتے ہوئے’ ’ہمارے‘ ‘کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو خاندان سے الگ نہیں کر رہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری شہزادے کوویڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی-سال 2004 تک حسین اور حسن کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمہ داری والدین پر نہیں آ سکتی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہوگا، پبلک آفس ہولڈر نے اسمبلی میں کہا” یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے“ جس کے بعد وزیراعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات سپیکر کو دیں ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں، یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا خطاب میں کہا تھا بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں اور ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کررہے ہیں، رپورٹ میں مریم کے بینیفیشل مالک ہونے کا کہا گیا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کی کمپنیوں کا بینیفیشل مالک ہونا کیپٹن صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوتا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ گوشواروں میں ملکیت کاذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو کرنے کے لیے باقاعدہ قانونی عمل درکارہو گا، جے آئی ٹی کو ایرول جارج نے اپنے جواب میں 2012جون کی صورتحال کی تصدیق کی اور ایرول جارج کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کر لیے ہیں اور اب کیپٹن صفدر کی جانب سے طارق حسن دلائل دے رہے ہیں۔