مضبوط عدلیہ اور مضبوط جمہوریت سے ملک مضبوط ہوگا ،ْاگر بدعنوانی ختم ہو جائے تو ہر غریب کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات ملیں گی ،ْ اراکین سینٹ

کسی ایک خاندان کا احتساب نہیں ہونا چاہئے ،ْاحتساب بلا امتیاز سب کا ہونا چاہئے ،ْ سراج الحق ،ْ شاہی سید ،ْ طاہر مشہدی ،ْ عتیق شیخ ،ْ ڈاکٹر غوث محمد نیازی ،ْ محسن عزیز ،ْ شیری رحمن ،ْ سعید مندو خیل ،ْ پرویز رشید کا اظہار خیال وزیراعظم سے وہ لوگ استعفیٰ مانگ رہے ہیں جن کا اپنا نام پانامہ پیپرز میں ہے ،ْ مشاہد اللہ خان رضا ربانی کااجلاس کے دوران ٹیلیفون کی گھنٹیاں بجنے پر شدید برہمی کا اظہار پانامہ پیپرز کیس کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے حتمی رپورٹ میں مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے ،ْجے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ،ْزاہد حامد وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی ثبوت جے آئی ٹی کو نہیں ملا ،ْ گواہوں کو دھمکیاں دی گئیں ،ْ ان کی تذلیل کی گئی ،ْخطاب پاک فوج فاٹا اصلاحات کے قطعاً مخالف نہیں، وہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے اور وہاں پر ترقیاتی سرگرمیوں کے لئے پرعزم ہے ،ْعبد القادر بلوچ

جمعرات 20 جولائی 2017 22:44

مضبوط عدلیہ اور مضبوط جمہوریت سے ملک مضبوط ہوگا ،ْاگر بدعنوانی ختم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جولائی2017ء) اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ مضبوط عدلیہ اور مضبوط جمہوریت سے ملک مضبوط ہوگا ،ْاگر بدعنوانی ختم ہو جائے تو ہر غریب کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات ملیں گی ،ْکسی ایک خاندان کا احتساب نہیں ہونا چاہئے ،ْاحتساب بلا امتیاز سب کا ہونا چاہئے۔ جمعرات کوسینٹ میں پانامہ پیپر کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ پانامہ پیپر کیس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سپریم کورٹ نے بنائی اور اسے 13 سوالات دیئے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد اب سپریم کورٹ میں معاملہ کی سماعت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ احتساب ہو اور جمہوریت بھی چلتی رہے ،ْنیب کے مطابق پاکستان میں 12 ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بدعنوانی ختم ہو جائے تو ہر غریب کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات ملیں گی۔

مضبوط عدلیہ اور مضبوط جمہوریت سے ملک مضبوط ہوگا۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ہمیں اداروں اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ احتساب بلا امتیاز ہونا چاہئے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ بلا امتیاز احتساب کے ذریعے ملک سے بدعنوانی کا کا خاتمہ ہوگا۔

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ احتساب کے لئے اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی حتمی رپورٹ آنے سے پہلے بہت سی باتیں کی جا رہی تھیں۔ قوم چاہتی ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو لیکن اس کے لئے جب تک احتساب کا نظام بہتر نہیں ہوگا مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ کسی ایک خاندان کا احتساب نہیں ہونا چاہئے۔

احتساب بلا امتیاز سب کا ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) تمام اداروں کا احترام کرتی ہے، بلا وجہ کسی کو احتساب کے نام پر نشانہ بنانا درست نہیں۔ آج بدعنوانی کی باتیں کرنے والے خود بدعنوانی میں ملوث ہیں، پہلے اپنا دامن صاف کریں پھر دوسروں پر انگلی اٹھائیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم نے آئین اور ملکی مفادات کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، ہمیں پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کو اولیت دینی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے ادارے اگر صحیح کام کر رہے ہوتے تو آج سپریم کورٹ کو مداخلت نہ کرنا پڑتی۔ بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ ترقی کے لئے ضروری ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آ چکی ہے، سپریم کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے، احتساب کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیا، پی پی پی نے ہمیشہ احتساب کا سامنا کیا، ہمارے لیڈروں نے جیلیں کاٹیں، ہم نے جمہوریت کی قیمت ادا کی۔

سینیٹر سعید مندوخیل نے کہا کہ صبح و شام ٹی وی چینلز پر یہی معاملہ پیش ہو رہا ہے، احتساب سب کا ہونا چاہئے، کوئی دبائو برداشت نہ کیا جائے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں، ہماری ذمہ داری عوام کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے، ملکی دولت محنت کشوں کی جیب سے اشرافیہ تک جا رہی ہے اور وہاں سے یہ باہر جا رہی ہے، 600 لوگوں کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں، اس بارے میں غور کرنا چاہئے۔

سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ کرپشن اس ملک میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے ہر دور میں ہے، ہر ادارے میں کرپشن ہوئی ہے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ بدعنوانی کرنے والے کو سزا ملنی چاہئے، بدعنوانی کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ آج پاکستان جن حالات کا شکار ہے، اس کی ذمہ دار کیا پارلیمان ہی کون سا سیاستدان تھا جس نے ایسی بدعنوانی کرلی کہ 1971ء میں پاکستان دولخت ہو گیا دہشت گردی نے کس بدعنوانی کو جنم دیا ون یونٹ پاکستان کے لئے بربادی کا سبب نہیں تھا یا بدعنوانی بربادی کا سبب بنی، کوئی سینیٹر اس کا جواب دے سکتا ہی آج پاکستانی سرحدوں پر جو خطرات ہیں وہ کس سیاستدان کی بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئی پاکستان میں کلاشنکوف کلچر کس سیاستدان کی وجہ سے آیا انہوں نے کہا کہ پاکستان جن تکلیفوں اور مشکلات میں ہے اس کی وجوہات بدعنوانی میں تلاش نہیں کی جا سکتی، جے آئی ٹی کا شکریہ ادا کرنے والے یہ بھول گئے کہ انہیں 60 دن کی حکومت ملی، جے آئی ٹی کے ہیڈ کو اپنے کزن کے علاوہ کوئی دوسری ایجنسی تحقیقات کے لئے نہیں ملی۔

19 ہزار پائونڈ جے آئی ٹی اراکین کے اکائونٹ میں گئے جو 60 دنوں میں اپنے آپ کو قابو نہیں کر سکے وہ 60 سالوں کا حساب حکومت سے مانگ رہے ہیں۔ آج بھی بدعنوانی کو ختم کر کے بہتر پاکستان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کی آڑ میں پاکستان کے عوام کی خواہشات کو نہیں ختم کرنا چاہئے۔ 1985، 1993، 1997ء، 2013ء کے انتخابات میں پاکستان کے لوگ ووٹ دیتے ہیں تو پھر اس سیاستدان کے احتساب کے لئے آنے والے انتخابات کا انتظار کریں، گیارہ مہینے رہ گئے ہیں، گیارہ ماہ بعد آپ یہ الزامات لے کر عوام کے پاس جا سکتے ہیں۔

سینیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ کرپشن کسی بھی حکومت اور اداروں کے زوال کا باعث ہوتی ہے۔ جمہوریت اس ملک کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ موجودہ دور میں تبدیلی انقلاب کے ذریعے یا جمہوری طریقے سے آ سکتی ہے، جہاں بھی انتخابات ہوئے وہاں پر بھاری اکثریت سے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا۔ توانائی کے بحران، امن و امان کی صورتحال، دہشت گردی کے خاتمے، معیشت کو مضبوط بنانے کے حوالے سے موجودہ حکومت نے بہت کام کئے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری ملک کے لئے ایک خواب تھا، پہلی حکومتیں بھی یہ کام کر سکتی تھیں لیکن میاں نواز شریف نے یہ تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان میں ترقی کا پہیہ چل پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال آج بہت بہتر ہے۔ سینیٹر ولیمز نے کہا کہ جے آئی ٹی نے مقررہ وقت میں اپنا کام مکمل کیا ہے۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ آج کرپشن کے بہت تذکرے ہو رہے ہیں، ہمارے لئے یہ قانون 1400 سال پہلے کا موجود ہے، ہمارا حق نہیں کہ ہم جے آئی ٹی یا عدلیہ کے کام میں مداخلت کریں۔

سینیٹر سیف الله مگسی نے کہا کہ کرپشن ہزاروں سال سے چل رہی ہے، ہمیں عوام کو سہولیات دینی چاہئیں۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ جے آئی ٹی سے شکایت یہ نہیں کہ اس نے کام نہیں کیا لیکن اس تھوڑے عرصے میں انہوں نے اتنا بڑا کام کیا ہے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ احتساب نہیں یہ ایک فرد اور ایک خاندان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہے۔ میاں نواز شریف ان لوگوں میں شامل ہیں جو منتخب نمائندوں اور پارلیمان کی بالادستی چاہتے ہیں۔

مشاہد الله خان نے کہا کہ جے آئی ٹی کے معاملہ پر لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بہت جھوٹ بولا، پانامہ دستاویزات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کا قصور یہ ہے کہ وہ ہر بار الیکشن جیتے ہیں، سندھ میں 493 ارب روپے کی کرپشن کرنے والے ڈاکٹر عاصم کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے اور سندھ میں اتنی مماثلت ہے کہ وہاں پر وزراء پکڑے گئے ہیں۔

وزرائے اعلیٰ پر الزامات لگ رہے ہیں مگر کسی سے استعفیٰ نہیں مانگا۔ پانامہ میں میاں نواز شریف کا نہیں، ان کے بیٹوں کا نام ہے۔ 34 آف شور کمپنیاں ایک شخص کے نام پر ہیں، بے نظیر بھٹو کا بھی نام ہے، رحمان ملک کا بھی نام ہے، عمران خان اور ان کی بہنوں کی بھی کمپنیاں نکلیں۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو دستاویزات دی ہیں وہ 80 فیصد سے زائد غیر تصدیق شدہ ہیں۔

وزیراعظم سے وہ لوگ استعفیٰ مانگ رہے ہیں جن کا اپنا نام پانامہ پیپرز میں ہے۔ نواز شریف کا یہ قصور ہے کہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں، جو لوگ مسلم لیگ (ن) سے الیکشن ہار جاتے ہیں، انہیں تکلیف تو ہوتی ہے لیکن یہ بھی سوچیں کہ عوام انہیں کیوں مسترد کرتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ احتساب کو آگے بڑھائے اور بدعنوانی کو ختم کئے بغیر ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔

ملک میں احتساب کے قانون کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات ہوں۔ اجلاس کے دوران اچانک یکے بعد دیگرے دو ارکان کی ٹیلیفون کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں جس پر چیئرمین نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ (آج) جمعہ سے ایوان بالا میں کسی رکن کو ٹیلیفون لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بعد ازاں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کھڑے ہو کر کہا کہ ان کے ہاتھ میں موبائل فون نہیں ہے بلکہ یہ ایک نوٹ بک ہے جو فلائٹ موڈ پر ہے جس پر چیئرمین نے کہا کہ وہ قائد حزب اختلاف اور سینیٹر مشاہد الله کے کہنے پر اپنے پہلے ریمارکس واپس لیتے ہیں۔

پانامہ پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ فائنڈنگز پر مبنی ہے جس میں استعفے کا نہیں کہا گیا، سپریم کورٹ معاملے کی سماعت کر رہی ہے، وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھیں، نکات سپریم کورٹ میں اٹھائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو 13 سوالات دیئے اور تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے ہدایت کی کہ جے آئی ٹی معاملے کی تحقیقات کرے، جے آئی ٹی نے عدالت کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ حدیبیہ پیپرز ملز، چوہدری شوگر ملز اور نیب کیسز جس کے معاملات کا جے آئی ٹی کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں۔ تحقیقات کا تمام عمل بدنیتی پر مبنی تھا۔ مدعا علیہان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی زیادہ تر دستاویزات ناقابل سماعت اور غیر متعلقہ ہیں۔

نیب آرڈیننس کے تحت آپ کسی معاملے کی تحقیقات کے کسی نجی کمپنی نہیں کرا سکتے اس کے لئے کسی دوسرے ملک کو ہی لکھ سکتے ہیں۔ لندن کی فرم تو جے آئی ٹی کے سربراہ کے کزن کی ہے۔ جے آئی ٹی کو تحقیقات اور شواہد اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ وہ عدالت کے طور پر کام نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی ثبوت جے آئی ٹی کو نہیں ملا۔

گواہوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ ان کی تذلیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دو والیم اس مقدمے کے تیار کئے گئے جس کو ہائی کورٹ ہلے ہی ختم کر چکی ہے۔ گواہوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی رہی۔ ٹیلیفون ٹیپ کئے جاتے رہے، والیم 10 کو کھولا نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وہ گوشوارے بھی جے آئی ٹی کو جمع کرا دیئے گئے۔ 2002ء میں فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد نیب نے تحویل میں لئے تھے۔ اسحاق ڈار کے پاس 34 سال کا ریکارڈ موجود ہے۔ شاید کسی دوسرے رکن پارلیمنٹ کے پاس یہ ریکارڈ نہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خیراتی اداروں کو عطیات دینے کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔ عطیات پر انہوں نے ٹیکس کا استثنیٰ طلب نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے بچے بھی اپنے اوپر الزامات کی مکمل تردید کر چکے ہیں۔فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر ہدایت الله نے کہا کہ ایف سی آر کا خاتمہ فاٹا کے عوام کو بااختیار بنانے کے لئے ضروری ہے۔ یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے اور فاٹا کے عوام اس کے لئے ہر سطح پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی بھی قائم کی، اس کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کیں جنہیں بل کی شکل میں کابینہ سے منظور کرایا گیا لیکن بعد میں وہ بل منظوری کے لئے کابینہ میں پیش نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے ہمارے تحفظات اب بھی قائم ہیں۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا سے ایف سی آر کا خاتمہ کئے بغیر قبائلی علاقوں کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ این ایف سی سے بھی فاٹا کے عوام کو 3 فیصد دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن وہ یقین دہانی بھی ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ فاٹا کے پارلیمنٹیرین کو اعتماد میں لئے بغیر فاٹا میں اصلاحات کے عمل کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ مارچ میں کابینہ نے فاٹا اصلاحات کی منظوری دی، ہر سیاسی جماعت نے اصلاحات کے اس عمل کا خیرمقدم کیا لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ عمل روک دیا گیا۔ فاٹا کے عوام کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ ایف سی آر کا خاتمہ ان کا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ پورا کیا جائے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ فاٹا کے عوام بھی ملک کے دیگر لوگوں کی طرح محب وطن ہیں، انہیں ان کے حقوق دیئے جائیں۔

سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ ایف سی آر کے خاتمہ کے حوالے سے اب تک جو بھی اقدامات کئے گئے ہیں، ان میں ہمیں سنجیدگی نظر نہیں آ رہی، فاٹا اصلاحات ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے، فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔ سینیٹ کی کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس بلا کر فاٹا اصلاحات کے بل پر تفصیلی غور کیا جانا چاہئے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اصلاحات ضروری ہیں۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ فاٹا کے عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں یا پھر اصلاحات کا کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں، اس کا حق انہیں ہی دینا چاہئے جو روز مادر وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ سینیٹر کینتھ ولیمز نے کہا کہ فاٹا جغرافیائی لحاظ سے خیبر پختونخوا کے ساتھ ہے اس لئے خیبر پختونخوا میں اس کے انضمام کے حوالے سے زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

ٹا اصلاحات کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر قومی اسمبلی میں بحث کی گئی، خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام پر اختلاف دیکھنے میں آیا۔ کابینہ نے بل کی جو منظوری دی اس کا مقصد فاٹا کو قومی دھارے میں لانا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں اضافہ کرنا اور ایف سی آر کا خاتمہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لئے اشیاء پر ٹیکسوں کے خاتمہ کا بل اس بل کا حصہ ہے کیونکہ پشاور میں آٹے کی تین ہزار روپے میں ملنے والی بوری لنڈی کوتل میں پانچ ہزار روپے میں ملتی ہے جو کہ ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر پورا سال غور کیا گیا۔ تمام ایجنسیوں کے عمائدین کا مطالبہ ہے کہ ہمارے رواج اور روایات کا بھی تحفظ ہونا چاہئے۔ ہم نے ہر طبقہ فکر کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی۔

جرگوں میں خیبر پختونخوا میں انضمام اور انضمام نہ کرنے کے معاملہ پر الگ الگ رائے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تمام سفارشات ہم نے تیار کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی بھی خواہش تھی کہ فاٹا اصلاحات کے عمل کو تیز کیا جائے اور انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔ پاک فوج اصلاحات کی قطعی طور پر مخالف نہیں بلکہ وہ تو وہاں ترقیاتی سرگرمیاں آگے بڑھانے کی خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کا مقصد ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانا ہے۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ فوج فاٹا اصلاحات کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواج ایکٹ کو جلد منظور کرانے کی کوشش کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے جب تک انضمام نہیں ہوتا فاٹا تک اسلام آباد ہائی کورٹ کا اطلاق ہونا چاہئے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا اطلاق ہو۔ انہوں نے کہا کہ آبادی، خصوصی علاقے اور پسماندگی کی بنیاد پر فاٹا کے لئے این ایف سی سے حصہ تین فیصد سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات ہر حال میں ہوں گی اور موجودہ حکومت کے دور میں ہی ہوں گی۔