جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا درست نہیں ، رپورٹ کے 2والیوم ہائیکورٹ کے کالعدم قرار دیئے گئے کیس پر لکھے گئے ، رپورٹ میں نازیبا زبان استعمال ، غیر قانونی طور پر ٹیلی فون ٹیپ کئے گئے، رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا،،اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی کو ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے دستاویزات دو دن قبل جمع کرائے لیکن یہ ریکارڈ کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے ریکارڈ جمع نہیں کرایا

وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کاایوان بالا میں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ بارے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک شخص غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہے ،اس پر کیا فیصلہ ہونا چاہیے ، ملک کی وفاداری کا حلفلے کر پھر بطور ملازم کمپنی کی وفاداری کیسے کی جا سکتی ہے، اصل مجرم چیئرمین ایس ای سی پی سے جعلسازی کرانے والے ہیں ، وہ بچ نہیں سکیں گے ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا ایوان میں اظہار خیال

جمعرات 20 جولائی 2017 22:35

جے آئی ٹی  رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا درست نہیں ، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 جولائی2017ء) وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا بالکل درست نہیں ہے، رپورٹ کے 2والیوم ایک ایسے کیس پر لکھے گئے جس کو ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، رپورٹ میں نازیبا زبان استعمال کی گئی اور غیر قانونی طور پر ٹیلی فون ٹیپ کئے گئے، رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا،،اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی کو ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے دستاویزات دو دن قبل جمع کرائے لیکن یہ ریکارڈ کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے ریکارڈ جمع نہیں کرایا، انہوں نے 34سال کا ریکارڈ جے آئی ٹی میں پیش کیا، رپورٹ میں الزامات ثابت کرنے کیلئے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔

وہ جمعرات کو ایوان بالا میں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ بارے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

جبکہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزازاحسن نے کہا کہ اگر وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک شخص غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہے اور وہاں پر تنخواہ لے رہا ہے تو اس پر کیا فیصلہ ہونا چاہیے ، وفاداری کس کے ساتھ ہونی چاہیے ،حلف ملک کی وفاداری کا لے کر پھر بطور ملازم کمپنی کی وفاداری کیسے کی جا سکتی ہے، جے آئی ٹی کے خلاف تیار شدہ بیانات پڑھے گئے، ویڈیو ریکارڈنگ سامنے آئے تو سب واضح ہو جائے گا، چیئرمین ایس ای سی پی کیس میں سب ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی، اس نے جس کی ایماء پر جعل سازی کی وہ مجرم ہے، اس پر جرم ثابت ہو جائے گا، جس نے دبائو ڈالا اور فیصلہ کرایا وہ مجرم ہیں، ان کا ماضی ایسا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر ایا ہو لیکن چند لوگوں کو سزا ہوئی اور یہ بچ گئے، ڈان لیکس میں تین قربانی کے بکرے دے دیں جس کے اقتدار کیلئے سب کچھ ہوا وہ بچ گیا، ایف آئی اے نے ظفر حجازی کا نرم کیس بنایا ہے یہ اس سے بچ نہیں سکیں گے ۔

قبل ازیں رپورٹ پر بحث کے دورانسینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ 600 لوگوں کے نام پانامہ کیس میں آئے تھے، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، تحقیق ہونی چاہیے کہ ملک کی دولت کیسے باہر جا رہی ہے، ایسے اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ ملک کی دولت چوری کر کے ٹیکس ہیون میں منتقل کرنے سے بچائی جا سکے، عوام کا اعتماد اداروں سے ختم ہو رہا ہے، جمہوریت کے لئے ٹیکس ہیون خطرہ ہے، جن کا بھی اکائونٹ ہے اس کو سزا دی جائے اور اس کیلئے قانون بنایا جائے، آف شور کمپنیوں میں اکائونٹ رکھنے کو جرم قرار دیا جائے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ آج تک ہر حکومت نے کرپشن کی، ہر ادارے میں کرپٹ لوگ موجود عوام کی دولت 1000سے 1500ارب ہر سال عوام کی دولت لوٹی جا رہی ہے، میڈیا کا کردار ٹھیک نہیں ہے، انہوں نے عدالتیں لگائی ہوئی ہیں اور فیصلہ سناتے ہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی سب اداروں کو تسلیم کرنا چاہیے، عوامی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، عدالتی سسٹم سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ یقیناً بدعنوانی کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے لیکن کیا آج کا پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس کی وجہ بدعنوانی ہی1971میں سیاست دانوں کی بدعنوانی کی وجہ سے ملک درلخت نہیں ہوا، دہشت گردی کیا سیاستدانوں کی بدعنوانی کی وجہ سے پھیلی ہے، یہ بتایا جائے کہ ملک کو ون یونٹ بنانے سے نقصان ہوا یا سیاستدانوں کی بدعنوانی سے نقصان ہوا، بلوچستان کے مسائل کس بدعنوان سیاستدان کی وجہ سے پیدا ہوئے، اس پر کوئی روشنی ڈالے، یہاں پر جے آئی ٹی کا شکریہ ادا کیا گیا، وہ بھول گئے کہ 60دن کیلئے جن کو چھوٹا سا اختیار دیا گیا تو جے آئی ٹی کے سربراہ کو اپنے کزن کے علاوہ دوسری کمپنی کی خدمات لینے کیلئے نہیں ملی،79ہزار پائونڈ اس کے خزانے میں دیئے گئے، ایسے لوگ تین نسلوں کا حساب دوسروں سے مانگ رہے ہیں، سابق وزیر داخلہ چیمپیئن بنتے تھے، کیاجے آئی ٹی کی رپورٹ میں رحمن ملک کیلئے جملے لکھے کیا وہ ملاحظہ کئے ہیں، آج بدعنوانی کو ختم کر کے بہتر پاکستان حاصل کیا جا سکتا ہے، بدعنوانی کی آڑ میں عوام کی خواہشات کی نفی کی جاتی ہے تو ملک کے مفاد میں ہی ہو گی، سیاستدانوں کا احتساب عوام انتخابات سے کرتے ہیں ، 11ماہ نئے انتخابات میں رہ گئے ہیں تو یہ سارے الزامات لے کر عوام کے پاس جائیں ، عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے محاسبہ کریں گے ، اگر لوگوں کی مرضی کی نفی کی گئی تو اس کے نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے جس طرح ماضی میں زبردستی لوگوں کو ان کی قیادت سے محروم کرنے کی کوشش کی ۔

سینیٹرروبینہ عرفان نے کہا کہ اپنے الزامات کے بعد وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا جس طرح بیرون ممالک میں استعفے دیے گئے ۔ پاکستان میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی بہتری ہے ، 2013کے انتخابات میں اور اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے بھاری اکثریت سے عوام نے مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم نوازشریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ۔

سنیٹر جان کینتھ ویلیم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اچھا کام کیا اور محنت سے رپورٹ تیار کی اور قانون کے تقاضے پورے کئے ۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ حرام مال کھانے والے حرامی ہیں ۔چیئرمین نے ھرامی لا لفظ حذف کردیا ۔ سینیٹر سیف اللہ مگسی نے کہا کہ گوادر کو دبئی بنانے کی باتیں کرنے سے قبل وہاں پر پانی تو مہیا کردیں اور عام شہر کی طرح بنالیں ۔

کرپشن کے خاتمے کیلئے قابل اعتماد منصفانہ سسٹم کی ضرورت ہے ۔ پروفیسر ساجد نے کاہ کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور رویہ پر بہت ساری باتیں سامنے آئی ہیں ، شواہد کے بغیر بعض نتائج نکالتے گئے ہیں ، جے آئی ٹی میں کیا جنشامل تھے کہ 60دن میں اتنا بڑا کام لیا اور 3000الفاظ پر مشتمل رپورٹ بنائی۔ اس میں بعض رپورٹیں پہلے سے ہی بنی بنائی شامل کی گئیں جو مشرف دور اور دیگر ادوار میں بنائی گئیں ۔

ملک میں احتساب نہیں ہورہا ہے ، یہ ایک خاندان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہا ہے ، یہ سویلین بالادستی کا مسئلہ ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ہے ، سیاسی استحکام کیلئے سیاسی جماعتوں کا اتحاد ضروری ہے ،نوازشریف کے خاندان کو نشانہ بنانے والے خوش نہ ہوں کل وہ بھی نشانہ بن سکتے ہیں ، منتخب لوگوں کو نشانہ بنانے والے کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے ، خارجہ پالیسی حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور وزیرخارجہ کیا کرے جب اس کے ہاتھ میں ہی کچھ نہیں ۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پانامہ لیکس میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے جھوٹ بولے ہیں ، الزام لگانے والوں پر الزامات خود ان کے آئے ہین ، پانامہ کیس میں کسی ملک کے سربراہ نے استعفیٰ نہیں دیا ، آئس لینڈ کے ملک کے سربراہ نے صرف استعفیٰ نہیں دیا ، سب سے زیادہ دولت امریکہ میں ہے وہاں سے کسی کا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا ، استعفیٰ کی کوئی بنیاد ہونی چاہیئے، ڈاکٹر عاصم پر جے آئی ٹی نے کہا کہ 443ارب کی کرپشن کی ۔

اس کو عدالت نے مسترد کیا ، پیپلزپارٹی نے استعفیٰ نہیں مانگا بلکہ پارٹی کا ضلع کا صدر بنایا ، خیبرپختونخوا میں کرپشن پر وزراء جیلوں میں گئے وہاں پر احتساب کمیشن کو تالا لگایا ہے ۔ پانامہ لیکس میں 450لوگوں کا نام ہے ، بے نظیر کا نام ہے ایک سینیٹر کی فیملی کے 34لوگوں کا نام ہے ، رحمان ملک کا بھی عمران خان اور ان کی بہنوں کی بھی آف شور کمپنیاں نکلی ہیں ،صرف دو آدمیوں کا نام نہیں آیا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں 80فیصد سے زائد دستاویزات غیر تصدیق شدہ ہیں ۔

ذرائع پر مبنی ساری رپورٹ بنائی ہے ۔ استعفیٰ مانگنے والوں کے خود پانامہ میں نام ہیں ، جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے 45ہزار پائونڈ میں کمپنی کا ادا کیا اس کا دفتر ایک کمرہ پر بھی مشتمل ہی ہے اس کمرے میں 2کمپنیوں کے دفاتر ہین ، یہ کرپشن کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔انہوں نے 50ہزار پائوؤنڈ کی واردات ڈال دی ، احتساب سب کا ہونا چاہیے ، احتساب کی بات کرنے والوں کو اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالنا چاہیے ، اپنے دوستوں کو دیکھنا چاہیے ، نوازشریف کا کیا قصور ہے لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔

سینیٹر اعتزازاحسن نے کہا کہ اگر وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک شخص غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہے اور وہاں پر تنخواہ لے رہا ہے تو اس پر کیا فیصلہ ہونا چاہیے ، وفاداری کس کے ساتھ ہونی چاہیے ،حلف ملک کی وفاداری کا لے کر پھر بطور ملازم کمپنی کی وفاداری کیسے کی جا سکتی ہے، جے آئی ٹی کے خلاف تیار شدہ بیانات پڑھے گئے، ویڈیو ریکارڈنگ سامنے آئے تو سب واضح ہو جائے گا، چیئرمین ایس ای سی پی ظفر الحق حجازی کیس میں سب ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی، اس نے جس کی ایماء پر جعل سازی کی وہ مجرم ہے، اس پر جرم ثابت ہو جائے گا، جس نے دبائو ڈالا اور فیصلہ کرایا وہ مجرم ہیں، ان کا ماضی ایسا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر ایا ہو لیکن چند لوگوں کو سزا ہوئی اور یہ بچ گئے، ڈان لیکس میں تین قربانی کے بکرے دے دیں جس کے اقتدار کیلئے سب کچھ ہوا وہ بچ گیا، ایف آئی اے نے ظفر حجازی کا نرم کیس بنایا ہے یہ اس سے بچ نہیں سکیں گے، پانامہ کیس میں سوا کروڑ دستاویزات کا انکشاف سامنے آیا کہ نواز شریف کے خاندان کے خلاف سازش کیسے ہے، جے آئی ٹی رپورٹ 13سوالوں کے جواب پر مشتمل ہے، کیلیبری فونٹ 2007میں آیا لیکن اس سے قبل کی تاریخ کے کیس کی دستاویزات بنائی گئیں، جعل سازی پر عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے، وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے رائیٹ جائیں دیکھیں آپ کے خلاف سازشیں باہر سے نہیں ہو رہی ہیں، آج کمر درد شروع ہو گئے ہیں۔

زاہد حامد نے کہا کہ اس بحث پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، اعتزاز احسن نے تقریر میں رولنگ کی خلاف ورزی کی یہ عدالتی معاملہ ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر استعفیٰ کا مطالبہ درست نہیں ہے، عدالت نے جے آئی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ 13سوالوں کے جوابات دیں اور ان پر تحقیقات کریں جبکہ جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی نے جن معاملات پر تحقیقات کیں جن کا 13سوالوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، تمام عمل ناقص تھا، اعتزاز احسن رپورٹ کو مکمل طور پر پڑھ لیں، رپورٹ میں جتنے بھی دستاویزات پیش کئے گئے وہ قانون کے تحت قابل قبول نہیں ہیں، غیر قانونی طریقہ سے دستاویزات خریدے گئے اور سب غیر تصدیق شدہ تھے، لندن کی فرم سے خدمات لینے اور جس طریقہ سے لی گئی وہ سوالیہ نشان ہے، دستاویزات نہیں دیکھائی گئیں، تقریر کے دوران اعتزاز احسن مداخلت کرتے رہے کہ وہ رولنگ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ عدالتی معاملہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ زاہد حامد نے کہا کہ رولنگ کے تحت صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ پر گفتگو کر رہا ہوں، رپورٹ میں 2والیوم ایک ایسے کیس پر لکھے گئے جس کو ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، رپورٹ میں نازیبا زبان استعمال کی گئی اور غیر قانونی طور پر ٹیلی فون ٹیپ کئے گئے، رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا بالکل درست نہیں ہے،اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی کو ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے دستاویزات دو دن قبل جمع کرائے لیکن یہ ریکارڈ کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے ریکارڈ جمع نہیں کرایا، انہوں نے 34سال کا ریکارڈ جے آئی ٹی میں پیش کیا، رپورٹ میں الزامات ثابت کرنے کیلئے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔