پانامہ پیپرز کیس کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حدیبیہ پیپرز ملز، چوہدری شوگر ملز اور دیگر معاملات جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دائرہ کار میں نہیں آتے

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا ایوان بالا میں پانامہ پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہارخیال

جمعرات 20 جولائی 2017 21:46

پانامہ پیپرز کیس کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں اپنے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جولائی2017ء) وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کیس کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حدیبیہ پیپرز ملز، چوہدری شوگر ملز اور دیگر معاملات جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

جمعرات کو ایوان بالا میں پانامہ پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ فائنڈنگز پر مبنی ہے جس میں استعفے کا نہیں کہا گیا، سپریم کورٹ معاملے کی سماعت کر رہی ہے، وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھیں، نکات سپریم کورٹ میں اٹھائے جا چکے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو 13 سوالات دیئے اور تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جے آئی ٹی معاملے کی تحقیقات کرے، جے آئی ٹی نے عدالت کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ حدیبیہ پیپرز ملز، چوہدری شوگر ملز اور نیب کیسز جس کے معاملات کا جے آئی ٹی کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں۔ تحقیقات کا تمام عمل بدنیتی پر مبنی تھا۔

مدعا علیہان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی زیادہ تر دستاویزات ناقابل سماعت اور غیر متعلقہ ہیں۔ نیب آرڈیننس کے تحت آپ کسی معاملے کی تحقیقات کسی نجی کمپنی نہیں کرا سکتے اس کے لئے کسی دوسرے ملک کو ہی لکھ سکتے ہیں۔ لندن کی فرم تو جے آئی ٹی کے سربراہ کے کزن کی ہے۔ جے آئی ٹی کو تحقیقات اور شواہد اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

وہ عدالت کے طور پر کام نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی ثبوت جے آئی ٹی کو نہیں ملا۔ گواہوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ ان کی تذلیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دو والیم اس مقدمے کے تیار کئے گئے جس کو ہائی کورٹ پہلے ہی ختم کر چکی ہے۔ گواہوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی رہی۔ ٹیلیفون ٹیپ کئے جاتے رہے، والیم 10 کو کھولا نہیں گیا۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وہ گوشوارے بھی جے آئی ٹی کو جمع کرا دیئے گئے۔ 2002ء میں فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد نیب نے تحویل میں لئے تھے۔ اسحاق ڈار کے پاس 34 سال کا ریکارڈ موجود ہے۔ شاید کسی دوسرے رکن پارلیمنٹ کے پاس یہ ریکارڈ نہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خیراتی اداروں کو عطیات دینے کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔ عطیات پر انہوں نے ٹیکس کا استثنیٰ طلب نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے بچے بھی اپنے اوپر الزامات کی مکمل تردید کر چکے ہیں۔