مزدور باپ دادا کے بیٹے کا ایوان بالا میں پہنچنا میرے لئے ایک اعزاز ہے، پارٹی نے مجھ پر جس اعتماد کا اظہار کیا اس پر پارٹی قیادت کا شکر گذار ہوں، سینیٹر سعید غنی

جمعرات 20 جولائی 2017 17:35

مزدور باپ دادا کے بیٹے کا ایوان بالا میں پہنچنا میرے لئے ایک اعزاز ہے، ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جولائی2017ء) سندھ اسمبلی کے نومنتخب رکن سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ ان کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا، مزدور باپ دادا کے بیٹے کا ایوان بالا میں پہنچنا میرے لئے ایک اعزاز ہے، پارٹی نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا جس پر وہ پارٹی قیادت کا شکر گذار ہوں۔ پچھلے ساڑھے پانچ سال کے دوران ایوان میں ان کے کلمات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔

پی ایس 114 کا الیکشن انتہائی شفاف تھا، اس سے پہلا ایسا شفاف الیکشن کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ جمعرات کو ایوان بالا میں انتہائی جذباتی انداز میں اپنا آخری خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے پانچ سال کے دوران ایوان میں میرے کلمات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس پر معذرت خواہ ہوں۔

(جاری ہے)

اپنی پارٹی کا نکتہ نظر پیش کرنا میری ذمہ داری تھی، سینیٹ سیکریٹریٹ کے تمام افسران کا بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے میرے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔

ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھنے والے اور عام سے فرد کے لئے اس ایوان کا رکن بننا میرے لئے بہت اعزاز کی بات تھی۔ سینیٹ کے عملہ کی رہنمائی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میڈیا نے بھی میری رہنمائی اور مدد کی۔ اس پر میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میڈیا کی وجہ سے میری شناخت ملک سے نکل کر دنیا میں بھی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔

میرے دادا مزدوری کرتے تھے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے میرے والد صاحب کو تعلیم دلائی، تعلیم کے حصول کے دوران بھی میرے والد مزدوری کرتے تھے۔ میٹرک کی فیس جمع کرانے کا وقت آیا تو میری دادی نے اپنے کپڑے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ دیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے گریجویشن کے بعد ماسٹرز کیا۔ بینک کی ملازمت کی اور پھر ٹریڈ یونین کا حصہ بن گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کے عوام کو پتہ چلنا چاہئے کہ غریب لوگ بھی اس ایوان میں پہنچ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی اوقات کبھی نہیں بھولی۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کا قول تھا کہ اپنے محسن کو کبھی نہ بھولو۔ میرے والد کو جب بینک میں ملازمت ملی تو سیکورٹی ڈیپازٹ جمع کرانے کے لئے ہمارے پاس 100 روپے بھی نہ تھے۔ وہ انہوں نے ایک پڑوسی سے لے کر جمع کرائے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی میں مجھے پیسے کی بہت پیشکش ہوئی لیکنب میرے والد کی باتیں میرے پیروں کی زنجیریں اور ہاتھ کی ہتھکڑیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کی عزت کی لاج آج تک رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ والد کی شہادت کے بعد 23 سال کی عمر میں سیاست میں پہلی بار قدم رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی میں نے تعلیم دلائی، ٹریڈ یونین میں آنے کے بعد 1996ء میں ملازمت سے نکل کیا۔

2001ء اور 2006ء میں ناظم بنا، پھر پارٹی نے مجھے سینیٹ میں بھجوا دیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کا رکن ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا ہوں اور اپنے حلقہ سے کامیابی لوگوں نے دلائی جہاں سے پیپلز پارٹی کبھی نہیں جیتی تھی، حلقے کے عوام کی توقعات پر پورا اترنا میرے لئے ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی 114 کا الیکشن انتہائی شفاف ہوا ہے۔ اس سے پہلے ایسا شفاف الیکشن نہیں ہوا۔ حلف دیتا ہوں میں نے الیکشن میں کوئی گڑ بڑ نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میرے لئے یہ ایک اعزاز بھی ہے۔ اس کا احسان اتار نہیں سکتا۔ اس ایوان سے جانے کے بعد سینیٹ کے ساتھیوں کو بہت یاد کروں گا۔