سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کل تک ملتوی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 20 جولائی 2017 13:23

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کل تک ملتوی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 جولائی 2017ء) : جے آئی ٹی کی رپورٹ پرسپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کو کل تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر آج سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی پانامہ عملدرآمد بنچ نے چوتھی سماعت کی ۔ آج کی سماعت میں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسن ، حسین اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جے آئی ٹی کے سورس میٹیریل کو چیلنج کیا۔

آج کی سماعت میں سلمان اکرم راجہ نے دلائل پیش کیے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں پر کوئی غلط الزامات نہیں ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الزام یہ بھی ہے کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت ہیں۔ فلیٹس کا الزام اب بھی مریم نواز پر موجود ہے۔

(جاری ہے)

عدالت میں جعلسازی پر فوجداری مقدمے کی استدعا نعیم بخاری نے کی ہے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ صبح سے اپنی باتیں دہرا رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام مجموعی طور پر لگایا گیا ہے وہ الزام قبول نہیں کر رہے صرف بیان کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کا کہ اگر بچے فلیٹس کی ملکیت ثابت نہ کر سکے تو پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جائے گا۔ عدالت میں دو خط سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے گئے۔ عدالت نے حمد بن جاسم اور برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق دستاویز کمرہ عدالت میں کھولیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا ۔ جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے اس لیے یہ دستاویزات رجسٹرار کو بھیج دی گئی ہیں۔ سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آ¾ی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان لینے کی زحمت نہیں کی۔ جس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جے آئی ٹی کی سفارشات شامل نہیں ہیں ۔

سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات مکمل نہیں کیں ۔متحدہ عرب امارات کے خط کے بعد مزید تحقیقات نہیںکی گئیں۔ یو اے ای حکام نے کہیں نہیں کہا کہ نوٹری مہر ان کی نہیں ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ انگریزی میں تو یہی لکھا ہے ۔ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے کہا کہ کیس میں مزید شواہد اور تحقیقات کی ضرور ت ہے۔ جے آئی ٹی نے رحمان ملک رپورٹ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا۔

جے آئی ٹی نے کوئی نئی بات نہیں کی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ آج نئی بات لے کر آ گئے ہیں کہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رحمان ملک کی رپورٹ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ حسین نواز آخر کر کیا رہے ہیں؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف نے اپنی زندگی میں حسن اور حسین نواز کے لیے رقم کا انتظام کیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو کہا تھا کہ تمام واجبات انہوں نے ادا کرنے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ عزیزیہ مل کے تمام 63ملین حسین نواز کو ملے ۔ آپ کا تبدیل ہوتا ہوا موقف آپ کے لیے تباہ کن ہے ۔ حسین نواز نے کہا تھا کہ ان کے پاس دیگر شئیر ہولڈرز کی پاور آف اٹارنی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے ان کے جواب میں کہا کہ بارہ سال پرانی دستاویزات شاید ابھی تک نہ ملی ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب 63ملین ریال رہ گئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ63ملین کا کچھ حصہ لندن گیا اور رقم کا کچھ حصہ واپس بھی آیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیاکہ رقم واپس کیسے آئی ؟ یہ بھی بتائیں´ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تمام باتیں یہاں پر نہیں بتائی جا سکتیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تو کیا کسی اور فورم پر تفصیلات دیں گے؟ وکیل نے کہا کہ کسی اور فورم کی بات میں عدالت پر چھوڑتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ منی ٹریل موجود ہے۔ حسین نواز نے یہ بھی کہا کہ سعید احمد نے کوئی ادائیگی نہیں کی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہل میٹل کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ معلوم نہیں۔ فائدہ اٹھانے والا سامنے موجود ہے لیکن فنڈز ذرائع معلوم نہیں ہیں۔ ہل میٹل سے فائدہ کس نے اٹھایا سب کو معلوم ہے۔ جس کی جائیداد ہو اسی نے وضاحت دینی ہوتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کا بے نامی دار اور زیر کفالت ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مہربانی کر کے دوبارہ پڑھ لیں میرا حافظہ کمزور ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس معاملے پر خواجہ حارث تفصیل سے بیان دے چکے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کرپشن سے متعلق نیب قانون کو دوبارہ کھول کر دیکھیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارا مقصد اس حوالے سے مزید تحقیقات کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم سرکاری سطح پر آنے والی دستاویز پر یقین نہ کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر جعلی دستاویزات عدالت میں پیش ہوں تو کیا ہوتا ہے؟ جس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر سات سال قید کی سزا ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ راجہ صاحب یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا ہے؟ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا ہو کیسے گیا ؟ ہماری نظر میں کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے۔ فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ متعلقہ فورم پر معاملہ جائے تو وضاحت بھی آئے گی ۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ کیس کے بنیادی حقوق متاثر نہیں کرناچاہتے۔ ایسا کچھ نہیں کہیں گے جس سے کیس پر اثر پڑے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ منروا کے بعد سروسز فراہم کرنے کا معاہدہ جے پی سی ا کے ساتھ ہوا ۔ جے پی سی اے نے واضح کیا کہ ان کا مریم نواز سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ منروا کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی میں نوٹری کی تصدیق کرنے والے وقار احمد عدالت میں موجود تھے۔

لیکن اب وہ عدالت سے باہر چلے گئے ہیں اور اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروانا چاہتئ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وقار احمد بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین ان کا نام نہیں بتانا چاہتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دبئی حکام کے پاس وقار احمد کا کوئی ریکارڈ موجو دنہیں ہے۔ آپ کی بات سے لگتا ہے کہ دئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس معاملے پر دبئی حکام سے غلطی ہوئی ہو گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار فروری2006کو تو برطانیہ میں چھٹی ہوتی ہے ۔

چھٹی والے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔ آپ کے پاس ا س کا کیا جواب ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے اس بات بھی یہی کہا کہ ممکن ہے کہ غلطی ہوئی ہو۔ جس پر شیخ عظمت سعید نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسے آنکھیں بند کر سکتے ہیں؟سپریم کورٹ آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے ۔ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا ۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کیلیبری فونٹ کا بیٹا ورژن آئی ٹی ماہرین کو دیا جاتا ہے ۔ بیٹا ورژن کو ڈاﺅن لوڈ کر کے کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ تکنیکی طور پر کیلیبری فونٹ کا بیٹا ورژن 2006میں استعمال کرنا ممکن تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا کوئی قانون فرم فونٹ چوری کر کے دستاویز تیار کرے گی؟ سلمان اکرم راجہ نے دوران سماعت حسین نواز کے کاروبار کے ابتدائی سرمایہ سے متعلق سوالات اٹھائے گئے ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جو باتیں نوٹ کر چکے ہیں وہ دوبارہ مت دہرائیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میں صرف عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں جناب راجا صاحب؟ سلمان اکرم راجہ نے وقار احمد کے عدالت میں آنے سے متعلق ججز کو اطلاع دی۔  سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی ۔ کل کی سماعت میں بھی سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل پیش کریں گے۔

متعلقہ عنوان :