حکومت کی خارجہ پالیسی کھوکھلی اور مضحکہ خیز ہے ،

ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے ، سعودی عسکری اتحاد کے حوالے سے حکومتی بیانات کنفیوژن پھیلا رہے ہیں ، مشیر خارجہ کا بیان سعودی عسکری اتحاد کے حوالے سے شرمناک اور جھوٹ پر مبنی ہے ، پارلیمنٹ نے یمن کے مسائل کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت نے سابق آرمی چیف کو اتحاد کی سربراہی کی اجازت دی ، 41 اسلامی ممالک نے عسکری اتحاد بنا کر امریکی صدر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ، حکومت مفلوج ہو چکی ، وزیر اعظم اسیر تفتیش ہے ، جنرل (ر) راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے 10 ماہ قبل مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے حوالے سے بیان جاری کرکے سعودی عرب کو باور کرایا تھا کہ وہ دستیاب ہیں، اس کی تحقیق ہونی چاہیے ، عسکری اتحاد کے ٹی او ا ٓرز بننے سے قبل سابق آرمی چیف کو کمانڈ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ، پاکستان کو ہمیشہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ، ٹھوس اور جاندار اور متوازن خارجہ پالیسی بنائی جائے سینیٹمیں اپوزیشن ارکان سینیٹر اعظم سواتی، سحرکامران، تاج حیدر، اعتزاز احسن، الیاس بلور، طاہر مشہدی ، عثمان کاکڑ، میاں عتیق، فرحت اللہ بابر، حافظ حمد اللہ ، محسن عزیز، شیری رحمن و دیگر کا امریکی سینیٹرز کے دورہ پاکستان اور اسلامی عسکری اسلامی اتحاد کے حوالے سے تحریک پربحث کے دوران اظہار خیال اجلاس میں حکومتی سینیٹر مشاہد اللہ اور اپوزیشن ارکان سینیٹ اعظم سواتی اور طاہر مشہدی کے درمیان شدید جھڑپ ، اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پرکھڑے ہو گئے ،شدید احتجاج ، شور شرابہ ، ایوان مچھلی منڈی بن گیا

منگل 18 جولائی 2017 20:18

حکومت کی خارجہ پالیسی کھوکھلی اور مضحکہ خیز ہے ،
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 جولائی2017ء) ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان نے حکومتی خارجہ پالیسی پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی کھوکھلی اور مضحکہ خیز ہے ، ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے ، سعودی عسکری اتحاد کے حوالے سے حکومتی بیانات کنفیوژن پھیلا رہے ہیں ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بیان سعودی عسکری اتحاد کے حوالے سے شرمناک ہے اور جھوٹ پر مبنی ہے ، پارلیمنٹ نے یمن کے مسائل کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت نے سابق آرمی چیف کو اتحاد کی کمانڈ کی اجازت دی ، 41 اسلامی ممالک نے عسکری اتحاد بنا کر امریکی صدر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ، حکومت مفلوج ہو چکی ہے اوراس کا وزیر اعظم اسیر تفتیش ہے ، جنرل (ر) راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے 10 ماہ قبل مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے حوالے سے بیان جاری کرکے سعودی عرب کو باور کرایا تھا کہ وہ دستیاب ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہیے ، عسکری اتحاد کے ٹی او ا ٓرز بننے سے قبل سابق آرمی چیف کو کمانڈ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ، پاکستان کو ہمیشہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ۔

(جاری ہے)

ٹھوس اور جاندار اور متوازن خارجہ پالیسی بنائی جائے ۔ منگل کو ان خیالات کا اظہار سینیٹرز اعظم سواتی، سحرکامران، تاج حیدر، اعتزاز احسن، الیاس بلور، طاہر حسین مشہدی ، عثمان کاکڑ، میاں عتیق، فرحت اللہ بابر، حافظ حمد اللہ ، محسن عزیز، شیری رحمن و دیگر نے امریکی سینیٹرز کے دورہ پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے عسکری اسلامی اتحاد کے حوالے سے تحریک پر بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔

اجلاس میں حکومتی سینیٹر مشاہد اللہ خان ، اعظم سواتی اور کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی، اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پرکھڑے ہو گئے اور شور مچایا اور احتجاج کیا۔ اپوزیشن کے شورشرابہ کے باعث ایوان میںکان پڑی سنائی نہ دے رہی تھی جس سے ایوا ن مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہاہے تھا ،اس دورا ن سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اپوزیشن اس وقت کیوں خاموش تھی جب ایبٹ آباد ، سلالہ حملہ ، ریمنڈ ڈیوس کے واقعات ہوئے اور حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا تھا ، کراچی میں 100 لوگ روزانہ قتل کیے جاتے تھے۔

منگل کو ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا۔ سینیٹر تاج حیدر نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے تحریک پیش کی کہ ایوان میں کابل میں امریکی سروسز کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے شمالی وزیرستان کا دورہ کرنے کے فوری بعد دیئے گئے بیان جس میں انہوں نے پاکستان کو خبردار کیا کہ یا تو وہ عسکری تنظیموں بالخصوص حقانی نیٹ ورک کی طرف سے اپنا رویہ تبدیل کرے، امریکہ کی جانب سے رویے کی تبدیلی کا سامنا کرے اور ریاض میں بنائی گئی عسکری اتحاد کے قواعد و ضوابط کار اور آرمی سٹاف کے حالیہ ریٹائرڈ چیف کو اس اتحاد کی سربراہی کی اجازت دینے کی روشنی میں پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ امریکی سینیٹرز نے وزیرستان کا دورہ کیا اور ڈومور کا مطالبہ کیا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کھوکھلی ہے اور مضحکہ خیز ہے، پاکستان تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، امریکہ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے تبدیلی کرنے والا ہے اور ہماری طرف سے خاموشی ہے، سعودی اتحاد کے حوالے سے حکومت کے بیانات کنفیوژن پھیلا رہے ہیں اور اس سے سعودی عرب سے تعلقات خراب ہوں گے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ مشیر خارجہ کا سعودی عرب کی اتحاد کے حوالے سے بیان شرمناک ہے اور جھوٹ ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے جھوٹ کا لفظ حذف کرا دیا، پاکستان امریکہ کا کوئی اسٹرٹیجک پارٹنر نہیں ہے، پاکستان نے افغانستان میں پراکسی وار میں حصہ لیا۔ سینیٹر جان مکین نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گرد قرار دیا جائے گا، الحرمین الشریفین کو کوئی خطرہ نہیں ، سعودی اتحاد ایران کے خلاف ہے، امریکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے۔

سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے باہر سے جو عطیات آتے ہیں ان کو فاٹا میں خرچ نہیں کیا جاتا، اس حوالے سے عوام کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ امریکہ دوستی صرف اپنے مفادات کیلئے ہے اور دوست ممالک سے ملٹری حاصل کرتا ہے، امریکہ نے مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو بڑھایا اور ترقی پسند حکومتوں کو ختم کیا، عالم اسلام مسائل میں پھنس گیا ہے، امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ہے اور یہ جنگ چاہتے ہیں کیوں کہ اس سے ان کی معیشت وابستہ ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا، حکومت بیان دے کہ پاکستان اپنے سپاہی یمن کے جھگڑے میں نہیں بھیجے گا، کل ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے اب سعودی عرب کی جنگ لڑنے لگے ہیں۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ افسوس ہے کہ ملک کو ہم نے تباہ کیا، امریکہ کے کہنے پر افغانستان میں جنگ لڑی، حکومت پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ فوج سعودی عرب نہیں بھیجیں گے لیکن حکومت نے سابق آرمی چیف کو سعودی عرب بھیجنے کیلئے خصوصی اجازت دی، پیسوں کیلئے پاکستان کا مفاد دائو پر لگا رہے ہیں، ایران نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، 1965 میں پاکستان کے جہاز تہران میں اترتے تھے، حکومت کی کوئی ٹھوس خارجہ پالیسی نہیں ہے، چین اپنے مفاد کیلئے پاکستان کیلئے دوستی کر رہا ہے، ٹی او آر بننے سے قبل سابق آرمی چیف کو کیوں بھیجا ہے۔

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ مشیر خارجہ نے کوئی وضاحت پیش نہیں کی، ان کا کوئی وژن نہیں ہے انہوں نے ایک سوال کا جواب نہیں دیا ہے، انہوں نے اخباری بیان یہاں پڑھا، پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو کسی ملک کا تعاون حاصل نہیں ہے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ امریکی سینیٹرز کے احساس برتری کو دیکھیں کہ انہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران کسی بھی پارلیمانی وفد یا کمیٹی سے ملاقات نہیں کی، وہ حکومت اور آرمی سے ملاقات کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔

طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ حکومت نا اہل ہے، حکومت کو امریکیوں کو آگاہ کر کے پاکستان دہشت گردی کے خلاف بہت کچھ کر چکا ہے، اب امریکہ کو ڈومور کرنا چاہیے، سعودی اتحاد کے ٹی او آرز بنائیں جو کشمیر اور فلسطین کی آزادی کیلئے کردار ادا کرے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی حکومت چلا رہی ہے یا کوئی اور چلا رہا ہے، عوام کو پتا ہے کہ کون چلا رہا ہے، سعودی عرب میں اسلامی کانفرنس کے موقع پر تمام اسلامی ممالک نے امریکی صدر کے ہاتھ پر بیعت کی، سعودی عرب کے بادشاہ سے تعلقات نہ بنائیں عوام سے تعلقات بنائے جائیں، پاکستان کی اتحاد کا حصہ نہ سنے، امریکی سینیٹر صرف با اختیار لوگوں سے ملتے ہیں وہ بے اختیار لوگوں سے نہیں ملتے، وزیراعظم با اختیار نہیں ہیں، ایک دن بتانا چاہیے کہ پاکستان کے پارلیمنٹ کے پاس کتنا اختیار ہے، عراق، شام، ایران، شمن اور لیبیا سے سبق حاصل کریں یہ طوفان یہاں بھی آ سکتا ہے، اقتدار کی خاطر اپنے اختیارات کو چھوڑ دیا ہے، سوشل میڈیا پر مشہور ہے کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کا مالیاتی کعبہ سعودی عرب ہے۔

سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ سعودی اتحاد کوئی تشویش کی بات نہیں ہے، مسلم امہ لیگ مسائل کے حل کیلئے اکٹھے ہونا خوش آئند ہے، شکوک و شبہات کو ختم کرنا چاہیے، پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کیلئے اتحاد اور اتفاق ضروری ہے، جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب میں جا کر مالی فائدہ حاصل نہیں کیا۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سعودی ملٹری اتحاد کے حوالے سے میرے 2سوالات ہیں، پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا، حکومت نے اس کے باوجود جنرل راحیل کو حکومت نے اجازت دی، یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف زیادہ اور دہشت گردی کے خلاف کم ہے، جنرل راحیل نے ریٹائرڈ منٹ سے دس ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے،آخر جنرل راحیل کو یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی، حکومت اس سوال کا جواب دے، کیا انہوں نے سعودی عرب کو باور کرایا تھا کہ وہ ملازمت میں توسیع نہیں لیتا اور میں آپ کیلئے دستیاب ہوں، اس کی تحقیق ہونی چاہیے، وزیر دفاع جواب دے۔

حکومت نے جماعت الاحرار پر اقوام متحدہ کی پابندی کو خوش آمدید کہا، جیش محمد پر اقوام متحدہ نے پابندی لگائی تو وزارت خارجہ نے چین کی مدد سے ویٹو کیا، یہ تضادات شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، یہ سیکیورٹی پالیسی کا المیہ ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ حکومت اور پارلیمنٹ نے 10 سال میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ عسکری اتحاد کے حوالے سے سوالات ہیں او آئی سی کی صورت میں اسلامی امت کا اتحاد ہے، دوسری طرف عسکری اتحاد بنایا جا رہا ہے، اس کا ایجنڈا کیا ہے، حکومت کہتی ہے کہ ایجنڈا معلوم نہیں ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کے سربراہوں سے مل کر اتحاد بنانے کی کوشش کی تو اس میں شرکت کرنے والوں کو مروا دیا گیا، لیکن اس عسکری اتحاد کی امریکہ حمایت کرتا ہے، اسلامی امہ کے حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ ہمیں استعمال کیا جا رہا ہے، امریکہ نیا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے، ہم بھی پیسوں کی گیم کرتے ہیں، ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں ہم نے پیسے لئے،افغانستان کی جنگ میں پیسے لے کر ہم استعمال ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک معقولہ مشہور ہے کہ جیسی پیرنی ویسا پیر ،سب سے بڑا پیسہ پیر ہے، سب کی محبت پیسہ ہے۔مشیر خارجہ نے عسکری اتحاد کے حوالے سے کہا تھا کہ جنرل(ر) شریف اپنی ذاتی حیثیت میں گئے، ان سے وضاحت پوچھنی چاہیے، امریکہ چھری اور گاجر کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، تنظیموں پر پابندی لگائو بچو اتنے پیسے دوں گا، اگر نہ مانیں تو پھر دھمکیاں دیتا ہے۔

سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی باتوں کی تائید کرتا ہوں انہوں نے سچ بولا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ان کی باتیں خطرناک ہوتی ہیں ان کی تائید نہ کریں، خارجہ اور داخلہ پالیسی کا اختیارات پارلیمنٹ کو دیتے جائیں۔ سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ دنیا میں شیعہ سنی کا فساد ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی سے نہیں ہے اور سعودی عسکری اتحاد سے اس طرح کے فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے، عسکری اتحاد کی حمایت کرنی چاہیے، ایران کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔

سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ سعودی عسکری اتحاد ایک تباہی ہے، اس سے پاکستان کو سوائے بربادی کچھ نہیں ملا، جنرل راحیل شریف کی عسکری اتحاد میں بھیجنے کے حوالے سے تحقیقات ہونا چاہیے۔ سینیٹر محمد علی سی نے کہا کہ پاکستان کو ہمیشہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا، ہم ایک قوم نہیں ہیں بلکہ قلی ہیں، جو سامان ریل کے ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے تک پہنچاتے ہیں، پہلے قوم ہنسی اوردوسروں کو پھر آنکھیں دیکھائیں۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے اب تک پاکستان کی خارجہ پالیسی خفیہ رہی ہے، حکومت کی ٹھوس اور واضح خارجہ پالیسی نہیں ہے، اقوام متحدہ غیر فعال ہو چکا ہے، آج پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، پاکستان مفلوج ہو چکا ہے، وزیراعظم زیر تفتیش ہیں۔ سینیٹر عامر دھامرا نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی دوغلہ پن پر مشتمل ہے، حکومت کنفیوز ہے، عسکری اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ آج بڑا شور کیا جا رہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس وقت کیوں خاموش تھے جب ایبٹ آباد کمیشن، ملالہ حملہ، ریمنڈ ڈیوس کے واقعات ہوئے، اس وقت کیوں خاموش تھے جب حسین حقانی امریکہ میں جا کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا تھا، کرنل طاہر حسین مشہدی کا لیڈر باہر بیٹھ کر کہتا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرو آج انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے پاکستان لگا دیا ہے، مسلم ممالک میں گروہ بندی واضح ہے، وزریاعظم اس میں پارٹی نہیں بنے جس کی ان کو سزا دی جا رہی ہے، اعظم سواتی نے غلط باتیں کیں ان کا لیڈر ان کو سکھاتا ہی ایسا ہے، جس پر سینیٹر اعظم سواتی نے احتجاج کیا اور کرنل طاہر حسین مشہدی نے بھی کھڑے ہو کر احتجاج کیا، جس پر مشاہد اللہ نے کہا کہ بیٹھ جائو تمہارا لیڈر غدار ہے، میں ان کو آئینہ دیکھا رہا ہوں۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ کو ایوان میں اس طرح رویہ کی اجازت نہیں ہے، مشاہد اللہ نے کہا کہ میں نے غلط بات نہیں کی، کراچی میں 100بندے قتل کراتے رہے ہیں ان کے ہاتھوں اور منہ پر خون لگا ہوا ہے، ان لوگوں کی تاریخ ٹھیک نہیں ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے ویمپائر کے لفظ کو حذف نہیں کیا جو سینیٹر مشاہد اللہ نے بولے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ساری دنیا پر حاوی ہونے کا زعم ہے، ہمارے اندر سب سے اچھائیاں دیکھتے ہیں، امریکی سینیٹرز نے پاکستان کو پالیسی تبدیل کرنے کے حوالے سے پہلی دفعہ نہیں دیا۔

وزیر دفاع نے کہا تھا کہ عسکری اتحاد میں جنرل راحیل شریف کو بھیجنے کا فیصلہ ہم کریں گے بعد میں کہا کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں گیا ہے، یہ ممالک کے سربراہوں سے دوستی کرتے ہیں اور سرکاری عہدے اپنی ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں، پھر اپنے حق میں سفارش کراتے ہیں، شاہی خاندانوں سے خاندانی تعلقات بناتے ہیں اور پھر قطری خط سفارش کیلئے آتا ہے، حکومت کی خارجہ پالیسی نہیں ہے، وزیر خارجہ نامزد نہ کیا جائے تا کہ وہ تعلقات نہ بنائے، پاکستان کے مفاد اور حق میں خارجہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ایک خاندان کیلئے پالیسی نہ بنائی جائے۔