پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر روایتی بیان بازی اور پالیسیوں کے بجائے دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیں ‘ سید علی گیلانی

چین کے مسئلہ کشمیر میں پڑنے سے حالات پیچیدہ ہو جائیں گے ‘ بیان

پیر 17 جولائی 2017 14:31

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 جولائی2017ء) کل جماعتی حریت کانفرنس ’’گ‘‘ گروپ کے چیئرمین سید علی گیلانی نے چین کے مسئلہکشمیر کے معاملے میں متحرک ہونے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدلتے عالمی منظر نامے میں کشمیر ایک فلش پوائنٹ بنتا جا رہا ہے اور اس کے حدود وار بعہ میں وسعت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کشمیر تنازعے کے حل میں مزید تاخیر زیادہ اور خطرناک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے خطے کی صورت حال بڑی تیزی سے دھماکہ خیز رخ اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چین دنیا کی ایک بڑی اور متبادل طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور اس نے مغرب کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو منوا لیا ہے انہوں نے کہاکہ چین کی سرحدیں چونکہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مل رہی ہیں لہذا وہ ان کے مابین جاری کشیدگی اور مخاصمت میں زیادہ تر تک غیر جانبدار رہ سکتا ہے اور نہ وہ اس کو نظر انداز کرین کا متحمل ہو سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ مسئل کشمیر کا حل طلب ہونا ویسے بھی اس خطے کے لئے بہت مہنگا ثابت ہوتا جا رہا ہے اور یہ کروڑوں عوام کے امن وچین کو غارت کرنے کا باعث بنتا رہا ہے اس مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے مابین تین بڑی جنگیں واقع ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوا ہے اور اربوں کھربوں مالیت کا نقصان بھی ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

تنازعہ کشمیر کے باعث بھارت اور پاکستان کو اپنی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اور جنگی اخراجات پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ان ممالک کی ایک بڑی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد اگرچہ کشمیر کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے تاہم چین کے اس معاملے میں پڑنے سے حالات نے اور زیادہ پیچیدہ رخ اختیار کیا ہے اور یہ صورت حال ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔

کشمیری راہنما نے زور دے کر کہا کہ موجودہ صورت حال بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں سے متقاضی ہے کہ وہ مسئلے کی نئی نوعیت اور نئی نہج پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور و فکر کریں اور روایتی بیان بازیوں اور روایتی پالیسیوں کے بجائے دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا ثبوت فراہم کریں ۔ ۔