نیلم جہلم منصوبے پر کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا،

منصوبے سی 31 مارچ تک 969 میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی 182 ارب کی ریکوری کی وجہ سے گردشی قرضوں کا حجم 401 ارب سے کم ہو کر 232 ارب روپے رہ گیا ہر سال 30 ملین ایکڑ فٹ پانی کو سمندر برد ہو نے سے بچانے کے لئے نئے ڈیم بنانا پڑیں گے چیئرمین واپڈا کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 12 جولائی 2017 14:45

نیلم جہلم منصوبے پر کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جولائی2017ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کو واپڈا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ نیلم جہلم منصوبے پر کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، 31 مارچ تک اس منصوبے سے 969 میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی جبکہ پی اے سی کی طرف سے مختلف ڈیموں کے لئے حاصل کئے گئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھاری شرح سود پر حاصل کئے گئے قرضوں کا تمام تر بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔

اجلاس بدھ کو پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں پی اے سی کے ارکان ارشد خان لغاری، جنید انوار چوہدری، پرویز ملک، شیخ رشید احمد، سردار عاشق حسین گوپانگ، سید نوید قمر، ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر شیری رحمان کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

پی اے سی کے استفسار پر چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ گزشتہ روز وہ بوجوہ اجلاس میں نہیں آ سکے۔

ارکان کے ذہنوں میں ان کی عدم موجودگی کے حوالے سے جو بدگمانی ہے وہ دور کی جائے۔ وزارت پانی و بجلی کی طرف سے گردشی قرضوں اور پن بجلی کے منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا کہ ریکوریاں اس وقت 93 فیصد سے زائد ہیں۔ نیپرا کی طرف سے ریکوریوں کا ہدف 100 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ 182 ارب کی ریکوریوں کی وجہ سے گردشی قرضوں کا حجم 232 ارب تک پہنچ گیا ہے جو پہلے 401 ارب تھا۔

سکوک بانڈز کے حوالے سے بریفنگ میں پی اے سی کو بتایا گیا کہ واپڈا کو حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ 1987ء میں بانڈز کے اجراء کی اجازت دی گئی۔ 1987ء سے 2004ء تک ہم نے 10 بانڈز جاری کئے۔ پھر یہ ذمہ داری بینکوں کے سپرد کر دی گئی۔ 2005ء میں واپڈا کو منگلا ڈیم ریزنگ کے لئے 8 ارب کے سکوک بانڈز جاری کرنے کے لئے کہا گیا۔ اس کی مدت سال تھی، یہ اکتوبر 2012ء میں ادا ہو چکا ہے۔

اس میں حکومت کی ضمانت تھی۔ دوسرا سکوک بانڈز بھی ادا ہو چکا ہے۔ تیسرا 2013ء میں نیلم جہلم کے لئے جاری کیا گیا۔ اس کی ادائیگی بھی ہو رہی ہے، جون 2016ء میں بھی نیلم جہلم کے لئے جاری کیا گیا۔ واپڈا نے 25 ارب ارب روپے کا قرضہ بھی ادا کر دیا ہے۔ مئی 2017ء میں داسو ڈیم کے لئے 144 ارب کے بانڈز جاری کئے گئے۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ اس پر شرح سود 11 فیصد ہے۔

وزارت پانی و بجلی کی طرف سے بتایا گیا کہ شرح سود ساڑھے 7 فیصد ہے۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ اس کا بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔ پن بجلی کی قیمت تین گنا بڑھا دی گئی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ اندرونی و بیرونی قرضے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر لئے گئے۔ اس کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پی اے سی کو بتایا گیا کہ غازی بروتھا، چشمہ، منگلا اور تربیلہ ڈیموں پر قرضے 300 ارب کے ہیں اور سالانہ 30 سے 35 ارب سود کی مد میں دینا پڑتا ہے اور 35 سے 40 ارب روپے اصل رقم ادا کی جا رہی ہے۔

تمام منصوبے ایکنک کی منظوری سے شروع کئے جاتے ہیں۔ نیلم جہلم منصوبہ کے حوالے سے پی اے سی کو بتایا گیا کہ 68.2 کلو میٹر سرنگیں مکمل کرلی گئی ہیں۔ اس منصوبہ میں حائل مشکلات پر قابو پا لیا گیا ہے۔ کام تسلی بخش انداز میں جاری ہے۔ 425 ٹاور لگنے ہیں۔ 421 پر کام ہو چکا ہے۔ اکتوبر میں پانی جمع کرنا شروع کر دیں گے۔ آئندہ سال فروری میں یہ منصوبہ کام شروع کر دے گا۔

کشن گنگا ڈیم کی وجہ سے ہمارے پانی میں 20 سے 25 فیصد کمی واقع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال 31 مارچ تک 969 میگاواٹ بجلی کی پیداوار نیلم جہلم سے شروع ہو جائے گی۔ ارکان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبے کو باقاعدہ جیالوجیکل سروے کے بعد شروع کیا گیا۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد دوبارہ سروے کرایا گیا جس کے بعد منصوبے کے ڈیزائن میں کافی حد تک تبدیلی کر دی گئی جس سے اس ڈیم کی ہئیت تبدیل کر دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداواری قیمت 15 سے 16 روپے تک جا رہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس کو 9 روپے تک لے آئیں۔ فروری 2018ء تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال 30 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا سالانہ بہائو 145 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے۔ پانی کی بچت کے لئے ہمیں نئے ڈیم بنانے پڑیں گے۔ دیامر، کالا باغ، اکھوڑی، مہمند اور داسو کے مقامات پر ذخائر تعمیر ہو سکتے ہیں۔

موجودہ ڈیموں کی اپ ریزنگ کی بجائے ہمارے پاس ایسے مقامات ہیں جہاں ہم آسانی سے نئے ڈیم بنا سکتے ہیں۔ سیکریٹری پانی و بجلی نے بتایا کہ نولانگ ڈیم کے حوالے سے بلوچستان حکومت سے بات چیت جاری ہے۔ اس منصوبہ پر 26 ارب لاگت آئے گی۔ فنڈنگ کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔ چیئرمین پی اے سی سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اس ڈیم سے 3 سے 4 لاکھ لوگوں کو پینے کا پانی ملنا تھا اور ایک لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہو سکتی تھی۔

اس منصوبہ کو بند کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نولانگ اور دادو ڈیموں کو 22 کروڑ کا خرچہ کر کے بند کر دیا گیا۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہی پی اے سی کو بتایا گیا کہ کچھی کینال منصوبہ بھی مکمل کیا جا رہا ہے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ بلوچستان میں پانی کے دونوں منصوبوں پر 22 اور 30 کروڑ روپے جو ضائع کئے گئے، اس کا ذمہ دار کون ہے اور پی اے سی کو بتایا جائے کہ اس کی ریکوری کس لئے کی جائے۔

سیکرٹری پانی و بجلی یوسف نسیم کھوکھر نے کہا کہ منصوبے مکمل کرنے کے لئے وسائل ناکافی ہیں، یہ منصوبے شروع تو کئے جا سکتے ہیں، مکمل کرنے کے لئے فنڈز درکار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے شعبہ کے لئے مختص رقوم 59 ارب سے کم ہو کر 35 ارب تک آ گئی ہیں۔ پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت پانی و بجلی نے بتایا کہ اس وقت اصل نقصانات 17.9 فیصد ہیں۔ 2013ء میں یہ نقصانات 19.6 فیصد تھے۔ ریکوریاں 94 فیصد ہیں، اگر 2013ء سے ریکوریاں اس طرح ہوتیں تو آج ہمیں گردشی قرضوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور فاٹا سے ریکوریوں اور واجب الادا رقوم کی تفصیلات بھی بتائیں۔

متعلقہ عنوان :