سندھ میں محکمہ اینٹی کرپشن کی جلد تشکیل نو کی جائے گی، وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ

صوبے میں ترقیاتی فنڈز خرچ نہ کر پانے کی ایک وجہ نیب کا سندھ حکومت کے افسران کو حراساں کرنا ہے، رواں سال وفاق سے سندھ کو 40 بلین کم ملے ہیں،وفاقی حکومت نے 493 بلین دینے کا وعدہ کیا ،بعد میں 13 بلین کٹوتی کر دی پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب

بدھ 5 جولائی 2017 22:50

سندھ میں محکمہ اینٹی کرپشن کی جلد تشکیل نو کی جائے گی، وزیر اعلی سندھ ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 05 جولائی2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے نیب کے قانون کا سندھ میں اطلاق کا خاتمہ سے متعلق محکمہ اینٹی کرپشن کی تشکیل نوکے لیے سندھ اسمبلی کی مشاورت سے چئیرمین مقرر کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ صوبے میں ترقیاتی فنڈز خرچ نہ کر پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نیب کا سندھ حکومت کے افسران کو حراساں کرنا ہے ،وہ بدھ کو جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے بطور مہمان خصوصی پوسٹ بجٹ 2017-18 کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،اس موقع پرر وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت ،چئیرمین منصوبہ بندی وترقیات محمد وسیم ،سیکریٹری خزانہ حسن نقوی ودیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی،وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ رواں سال وفاق سے سندھ کو 40 بلین کم ملے ہیں،وفاقی حکومت نے 493 بلین دینے کا وعدہ کیا ،بعد میں 13 بلین کٹوتی کر کے 480 بلین دینے کا معاہدہ کیا اور سال کی آخر میں 440 بلین ملے ،اس طرح اگر وفاقی حکومت کے وعدوں کو دیکھا جائے تو سندھ کو 53 بلین کم ملے،مجموعی اعداد وشمار دیکھی جائے تو 40 بلین کم ملے ہیں،امان وامان کے شعبہ پر رواں سال 90 بلین خرچ کریں گے ،رینجرز کو سیکورٹی الاؤنس دئیے ہیں جو 2.5 بلین سے زیادہ ہیں،ہم نے پولیس ،رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیارات دئیے ہیں،شہدا کے لیے معاوضہ رینجرز کو بھی دیتے ہیں ،محکمہ صحت سے انہوں نے آگاہی دیتے ہوئے این آئی سی وی ملک کا واحد اسپتال ہے جہاں سب سے زیادہ اینجو پلاسٹی اور اینجو گرافی ہوتی ہے ،جہاں سندھ بھر کے مریضوں کے علاوہ دور دراز سے آنے والے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے ،وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کرپشن کا خاتمہ وفاقی نہیں،بلکہ صوبائی معاملہ ہے ،کرپشن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ،نیب افسران اس بدعنوانی کی روک تھام میں ناکم رہی ہے،کرپشن کے خلاف مزید اختیارات کے حامل ایک ادارے کے قیام کی تضویز زیر بحث ہے ،اس ادارے کا نام سندھ اینٹی کرپشن ایجنسی کے اپنے پراسیکیوٹر سمیت کئی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں،توقع ہے کہ اس ایجنسی کے قیام کے بعد سندھ میں کرپشن کی روک تھام میں زیادہ مدد ملے گی،انہوں نے کہا کہ نیب کی جانب سے صوبائی افسران کو حراساں کیا جارہا تھا جس کی باعث ترقیاتی فنڈز خرچ نہ ہوسکے،انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ کے بجٹ کا پیسہ لیس ہوتا ہے ،ایسا ہرگز نہیں،بلکہ سال کی آخر میں پیسہ ختم ہوجاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم پر بجٹ صرف نہ کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے ،افسران کے خوف سے فنڈز خرچ نہیں کرتے تھے ،کیونکہ نیب کا ڈریکونین قانون تھا ،نیب ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دے رہا،انہوں نے نیب سے متعلق ایک ناقص کارکردگی کا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ نیب کا ڈی جی محکمہ آبپاشی سکھر کے بنگلے پر قبضہ کر کے بعد میں افسران کو حراساں کر کے بعد میں افسران کو حراساں کر کے الاٹ کروایا ہے اور وہ 450 ملین کی مرمتی رقم خرچ کرواکر وہاں رہتے ہیں،اسی طرح نیب نے سکھر بیران کالونی میں مزید دو بنگلے زبردستی الاٹ کروائے ہیں،نیب کے حیدر آباد ڈویڑن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے سیڈا کی گاڑی پر قبضہ کیا ہوا ہے�

(جاری ہے)