مریم نواز سے پہلے ماضی میں بھی متعدد خواتین سیاسی و سماجی رہنمائوں نے عدالتوں کا سامنا کیا

فاطمہ جناح ، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو ، عاصمہ جہانگیر ، کلثوم نواز ، شرمیلا فاروقی اور سیدہ شہلا رضا شامل ‘ رپورٹ

بدھ 5 جولائی 2017 16:32

مریم نواز سے پہلے ماضی میں بھی متعدد خواتین سیاسی و سماجی رہنمائوں ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 جولائی2017ء) پاکستان کی تاریخ میں وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز سے پہلے ماضی میں بھی متعدد خواتین سیاسی و سماجی رہنمائوں نے عدالتوں کا سامنا کیا ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد جب بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ پاکستان آگئے تو ان کی تمام جائیداد انڈیا میں رہ گئی تھی۔

1948ء میں محمد علی جناح کی وفات کے بعد گزٹ آف پاکستان میں شائع ہونے والے ضمیمے میں فاطمہ جناح کو ان کا وارث قرار دیا گیا تھا۔1951ء میں فاطمہ جناح نے ڈان اخبار کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن درج کرائی تھی لیکن وہ اس بنیاد پر کیس نہیں جیت سکیں کہ تقسیم سے قبل دلی سے شائع ہونے والا ڈان اخبار محمد علی جناح کی ملکیت تھا اور کراچی سے شائع ہونے والا اخبار ہارون خاندان کی ملکیت تھا۔

(جاری ہے)

معروف سکالر خالد احمد نے اپنے ایک میں مضمون میں لکھا ہے کہ فاطمہ جناح نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ مشترکہ حلف نامہ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرایا جس میں انہوں نے قائد اعظم کو شیعہ خوجہ قرار دیا اور عدالت سے التماس کی کہ ان کی جائیداد شیعہ قوانین کے تحت وارثوں کو دی جائے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور بینظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو نے ستمبر 1977ء میں اپنے شوہر کی فوجی آمر ضیاء الحق کی حکومت کے ہاتھوں حراست اور مارشل لا کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔

اپنی درخواست میں بیگم نصرت بھٹو نے ضیا الحق کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی اور ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔20ستمبر کو جس دن بیگم نصرت بھٹو نے یہ درخواست دائر کی تھی اسی دن فوجی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر چیف جسٹس یعقوب علی خان کو تبدیل کر کے انوار الحق کو ان کی جگہ تعینات کر دیا جنہوں نے اس درخواست کو عدالت میں داخل کر لیا اور 10نومبر کو متعدد سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت ضیاء الحق کے مارشل لا ء کو قانونی قرار دے دیا۔

اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بینظیر بھٹو نے بھی فوجی حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ اپنے والد کی قید کے دوران بینظیر بھٹو کو کئی دفعہ نظر بند کیا گیا تھا لیکن 1983ء میں وہ پہلی دفعہ فوجی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں جب انہیں بائیں بازو کے سندھی رہنما جام ساقی کے خلاف حکومت کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں پیش ہونا پڑا۔بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی بشیر ریاض نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بینظیر بھٹو نے مختلف مقدموں میں متعدد بار عدالتوں کا سامنا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ختم کر دی گئی جس کے بعد انہیں سندھ ہائی کورٹ میں جواب دہی کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ بشیر ریاض نے بتایا کہ اسی دوران ان پر پنجاب ہائی کورٹ میں بھی کرپشن کے مقدمے میں طلب کیا گیا۔1996ء میں بینظیر بھٹو کو ایک بار پھر عدالت کا رخ کرنا پڑا جب ستمبر کے مہینے میں ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیانات قلم بند کرائے۔1971ء میں عاصمہ جہانگیر جیلانی نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی مارشل لا ء حکومت کے تحت حراست کو پنجاب ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جسے ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ کیونکہ یہ حراست مارشل لاء ضوابط کے تحت ہوئی ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

اس کے بعد عاصمہ جہانگیر جیلانی نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست جمع کرائی جس میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ملک کا آئین سب سے مقدم ہے جس کے تحت مارشل لا اور آمر یحیی خان کی حکومت غیر قانونی ہے۔عاصمہ جہانگیر جیلانی کی اس درخواست نے ملک میں جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔1999ء میں جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹا تو نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے اپنے میاں اور اپنے بیٹے حسین نواز کی حمایت میں عدالت کا رخ کیا۔

دسمبر 1999ء میں انہوں نے اپنی بہو اور حسین نواز کی بیوی کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انہیں اپنے خاندان کے گرفتار مردوں سے ملنے کی اجازت دی جائے جنہیں 12 اکتوبر سے حراست میں لیا گیا تھا۔1990ء میں آئی جے آئی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کو ان کے والد عثمان فاروقی اور والدہ انیسہ فاروقی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تاہم ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر سیدہ شہلا رضا نے ٹویٹ کی کہ مریم صاحبہ میرے والد کے چہرے کی تشویش محسوس کیجیے۔۔۔'، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی 1985ء کی تصویر بھی شیئر کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مریم آپ تو ایک خاتون ہیں آپ کے ساتھ لیڈی پولیس ہوگی میرے ساتھ کیوں نہیں تھی، 21سال کی طالبہ۔