Live Updates

عاجزی ، انکساری سے بتا رہے ہیں ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ‘ انصاف کا معاملہ نہیں ہو رہا ‘ خواجہ سعد رفیق

اکثریت پر اقلیت کے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،ہمیں الزامات لگا کر سیاست سے باہر نہیں کیا جا سکتا غیر فطری طریقے سے نکالنے کی کوشش کرو گے تو ہم زیادہ اکثریت سے واپس آئیں گے ،سی پیک سے جڑنا دشمنوں کو پسند نہیں اگر ہم بھیک مانگتے رہیں گے تو پھر ریمنڈ ڈیوس چھوڑنا پڑیں گے ، عمران خان ہمیں گندا کرتے کرتے خود گندے ہو گئے ہیں ہمیں گرانے کی کوشش کریں گے تو آپ کی باری بھی نہیں آئے گی ،یہ نہ ہو کل جدوجہد میں آپ ٹرک پر ہمارے ساتھ ہوں دھرنے کے زخمی سانپ ادھ موئے ہیں پوری طرح مرے نہیں ،کوئی حادثہ ہوا تو ساری ذمہ داری عمران خان پر ہو گی ‘ کارکنوں سے خطاب

ہفتہ 1 جولائی 2017 18:19

عاجزی ، انکساری سے بتا رہے ہیں ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ‘ انصاف کا ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جولائی2017ء) وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ عاجزی اور انکساری سے بتا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور انصاف کا معاملہ نہیں ہو رہا ،اکثریت پر اقلیت کے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ، بتایا جائے انتظار کیوں نہیں کرتے کس بات کی جلد ی ہے جو بارہ مہینے نہیں نکال سکتے ،ہمیں الزامات لگا کر سیاست سے باہر نہیں کیا جا سکتا ، اگر غیر فطری طریقے سے نکالنے کی کوشش کرو گے تو ہم آئندہ عام انتخابات میں زیادہ اکثریت سے واپس آئیں گے ،کوئی شک نہیں کہ سی پیک سے جڑنا دشمنوں کو پسند نہیں ،کچھ علاقائی اور عالمی طاقتوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا ، اگر ہم بھیک مانگتے رہیں گے اور عالمی طاقتوں کے در پر جھکے رہیں گے تو پھر ریمنڈ ڈیوس چھوڑنا پڑیں گے ، عمران خان ہمیں گندا کرتے کرتے خود گندے ہو گئے ہیں ، سن لیں ہمیں گرانے کی کوشش کریں گے تو آ پ خود بھی نہیں بچیں گے اور آپ کی باری بھی نہیں آئے گی اور یہ نہ ہو کہ کل جدوجہد میں آپ ٹرک پر ہمارے ساتھ ہوں ،دھرنے کے زخمی سانپ ادھ موئے ہیں پوری طرح مرے نہیں ،اگر کوئی حادثہ ہوا تو کچھ سانپ بچ کر نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن اس کی ساری ذمہ داری عمران خان پر ہو گی اور آپ بچ نہیں پائیں گے ۔

(جاری ہے)

اپنے انتخابی حلقہ میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ دو ممالک کے وزرائے خارجہ نے نواز شریف کو فون کر کے کہا کہ آپ لانگ مارچ لے کر باہر نہ نکلیں آپ کی جان کو خطرہ ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عدلیہ کی بحالی کے لئے جان جانے والا لانگ مارچ کیا ۔ نواز شریف نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور پھر انہی کے ہو کر رہ گئے ۔

انہوں نے جب جب ملک کو آگے لیجانے کی کوشش کی ان پر الزامات لگے اور حکومتیں توڑی گئیں ، احتساب کا نعرہ لگایا گیا لوٹ مار کے الزامات لگائے گئے او رکہانی ختم کی گئی ۔ انہوںنے کہا کہ ہم مرکزی حکومت میں اللہ کے بعد عوام کی مرضی سے آئے ہیں لیکن ہماری حکومت کو کام نہیں کرنے دیا گیا ۔ پہلے دھاندلی کا ڈرامہ رچایا گیا اور اسلام آباد کا گھیرائو کیا گیا اور شاہراہ دستور پر قبریں کھودیں گئیں ، اجتماعی طور پر کہا گیا کہ پارلیمنٹ چور ہے ،ہم نے طاقت کا استعمال نہیں کیا حالانکہ کچھ سیاسی اور غیر سیاسی لوگوںکو بہت شوق تھا کہ جمہوریت کو چلتا کریں ۔

اس موقع پر جنرل راحیل شریف کے کردار کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہو گی ،انہوں نے دھرنا ون میں مثبت کردار ادا کیا اور توازن ٹھیک رکھا ۔ لوگ چیختے رہے لیکن امپائر کی انگلی کھڑی نہیں ہوئی ،انہیں بات سمجھ آ چکی ہے اب وہ آئین اور جمہوریت کے محافظہیں ۔ دھرنے کے زخمی سانپ ادھ موئے ہیں پوری طرح مرے نہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے بطور سیاسی کارکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک سے جڑنا کچھ علاقائی ممالک اور عالمی طاقتوں کو گوارا نہیں ،ہمارے پڑوسی ہماری خوشحالی نہیں دیکھ سکتے ۔

طاقتور ممالک چاہتے ہیں کہ ہم ان کے قدموں میں جھکے رہیں ، ہم کب تک ایسے ہی جھکے رہیں گے او رمانگتے رہیں ۔ اگر ہم بھکاری بنے رہے تو پھر ریمنڈ ڈیوس چھوڑنے پڑتے ہیں ،جب ہم مانگیں تو پھر آنکھیں نہیں دکھا سکیں گے۔ موجودہ حالات میں ہمیں ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان ہونے سے بچنا ہوگا۔ جو پارسائی کے زعم میں مبتلا ہیں انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ تنہا تم ہی پارسا نہیں ہو ۔

اگر سیاستدانوں کے دامن پر داغ اورالزامات لگتے رہے تو پھر قیادت کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں بھاری دل سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان سے نا تجربہ کاری نے سب کچھ کرایا ہے ۔ ان کے دائیں بائیں جو دو تین لوگ کھڑے ہیں و ہ چاہتے ہیں کہ جان چھوٹے اور ہماری باری آئے وہ عمران خان کو کہتے ہیں کہ پڑ جائو ، گالیاں دو ، الزام لگائو ، عمران خان ہمیں گندا کرتے کرتے خود گندے ہو گئے ہیں ۔

یہ آگ کا کھیل ہے کہیں یہ نہ ہو کہ جدوجہد میں آپ کو بھی ہمارے ساتھ ٹرک پر چڑھنا پڑ جائے ۔ ایک دور تھا جب (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی والے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے لیکن ایسا وقت بھی آیا کہ ہمیں ایک ٹرک پر چڑھنا پڑا ہمیں میثاق جمہوریت کرنا پڑا ۔ ہم نے بھی ایک دوسڑے کو پکا او ربڑا چور بنادیا تھا لیکن پھر ہم نے مل کر جدوجہد کی اور سبق سیکھا ۔

خان صاحب اتنا آگے نہ جائیں ، اگر مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آئے گی تو پھر کیا فائدہ ۔اب بھی تیر کمان سے نکل چکے ہیں ، ہم ایک دوسرے کے خلاف مدعی بن گئے ہیں ، ہم نے اور آپ نے ایک دوسرے کے خلاف بڑی بڑی باتیں کی ہیں جو واپس نہیں ہو سکتیں لیکن اگر کوئی حادثہ ہوا تو کچھ سانپ بچ کر نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن اس کی ساری ذمہ داری آپ پر ہو گی اور آپ بچ نہیں پائیں گے ۔

نوزائیداہ سیاستدان ہمیں گالی دیتے ہیں لیکن ہم جواب میں گالی نہیں دیں گے ۔ پی ٹی آئی کی سنجیدہ قیادت کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ۔ منتخب حکومت کو چار سال ہو گئے ہیں ایک سال کیوں صبر نہیں ہوتا ۔نواز شریف کسی بیرونی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کرتا ، ریاستی اداروں کو آئین و قانون کا پابند کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ،ملک کو خوشحالی کے راستے پر ڈالنے کی بات کرتا ہے ، ملک میں سیلولر ٹیکنالوجی لاتا ہے ، موٹر وے بناتا ہے، ڈوبتے اداروں کو کھڑا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ترقی کی ٹانگوں کو کھینچا جاتا ہے ، اگر ہم ساری توانائی سازشوں ، حملوں ،انتقام اور تعصب کے مقابلے پرصرف کریں گے تو پھر ریاست اور اداروں کے لئے وقت اور توانائی کیسے بچے گی اور یہی بنیادی سوال پاکستانیوں کو تلاش کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں ہم اداروں کا ااحترام کرتے ہیں کیونکہ اگر فیصلے نہیں مانے جائیں گے تو بیگاڑ پیدا ہوگا لیکن ہم آئین کو سر نگوں نہیں ہونے دیں گے بیشک ہمارے اوپر سے روڈ رولر گزار دیا جائے ۔ لیکن ہمیں اس بات کا بھی حق حاصل ہے کہ ہم لوگوں کے جذبات کو سامنے لائیں ، ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اگر کہیں انصاف ہوتا ہو محسوس نہیں کرتے تو اس پر اپنے جذبات اور خیالات کو سامنے لائیں ،ان اعتراضات کو سامنے لائیں ، ہمارے تحفظات ہیں لیکن یہ گستاخی نہیں ہے ہم بے ادبی نہیں کریں گے ، کارکن فیصلوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں ، ہم عاجزی اور احترام کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہماری بات کو بھی سنا جائے ہم بھی کروڑوں ووٹ لے کر آئے ہیں ۔

ہماری وٹس ایپ کی بات سنی گئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، تصویر لیک کے معاملے پر ہمارے تحفظات دور نہیں کئے گئے ، ٹیلیفون ٹیپ کئے گئے لیکن کسی نے جے آئی ٹی سے پوچھا کہ آپ نے کس قانون کے تحت فون ٹیپ کیے یا کس ذرائع سے کئے ۔ سول ملٹری تعلقات اہم ترین اور حساس مسئلہ رہا ہے ،پارٹی میں یہ بات ہوئی کہ یہ معاملہ اٹھایا جائے کہ انٹیلی جنس اداروں کو سیاست میں شامل نہ کیا جائے لیکن نواز شریف نے کہا کہ ہم نے کوئی اعتراض نہیں کرنا اسی طرح آئی بی کے معاملے پر بات ہوئی اس پر بھی نواز شریف نے خاموش رہنے کا کہا ۔

ہم نے تعاون کیا ہے کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے بلکہ سر جھکا کر تعاون کر رہے ہیں، لیکن ہم جو تحفظات اور سوالات کر رہے ہیں اس کی ہمیں آئین اجازت دیتا ہے ۔ اس لیڈر جس نے ملک کو ڈلیور کیا ہے اسے بغیر کسی ثبوت کے گارڈ فادر کہا گیا ہم اس پر درخواست ڈال سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ نہال ہاشمی نے بے وقوفی کی جس کا انہیں بھی اور ہمیں بھی نقصان ہوا لیکن ہمیں فاضل جج کی طرف سے جرائم پیشہ مافیا سے تشبیہ دی گئی اورکوئی الفاظ واپس نہیں لئے گئے ، ہمیں کروڑوں ووٹ پڑے ہیں ، اگر ہمارے سیاسی مخالفین اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے تو ہم کہتے سیاسی لوگوں نے یہ بات کی ہے لیکن فاضل عدالت کی طرف سے ایسے الفاظ کہے گئے ،ہم عاجزی سے کہتے ہیں کہ ہم پھر کدھر جائیں، ہم نے لوگوں کے پاس واپس بھی جانا ہے ، آصف علی زرداری اپنی طرز حکمرانی سے فارغ ہو گئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان ہمارے مقابلے پر رہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ادب سے کہتے ہیں کہ اگر سیاست ، صحافت یا کہیں اور کسی کو ہمارے چہرے پسند نہیں تو پاکستان کا سوچیں اور اپنی سو چ اور رویوں پر نظر ثانی کریں کیونکہ پاکستان کا دشمن یہی جاتا ہے ۔ ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ہمیں قدم جما کر چلنا ہے ابھی ہم جہالت اور غرببت کا مقابلہ نہیں پائے ابھی دہشتگردی ختم نہیں ہوئی ۔اس صورتحال میں ہم ملک کے اندر جھگڑیں گے تو پاکستان کا کیا بنے گا ۔

ہم سب کدھر جارہے ہیں ، ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ، سب کو اپنی غلطیوں کا احاطہ کرنا چاہیے، اگر ہم نے نہیں کیاتو ہمیں بھی کرنا چاہیے ۔میں بڑے ادب سے کہتا ہوں کہ پاکستان جمہوریت اور سیاست کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ عمران خان اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پراپیگنڈا کریں گے اور الزامات لگائیں اور مخالفت کریں گے اورآپ ہمیں گرائیں گے تو آپ کی باری بھی نہیں آئے گی ، اگر ہم گر جائیں گے تو صرف ہم نہیں جائیں گے آپ بھی گر جائیں گے ، وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں ، ہمیں سیاست سے اس طرح نہیں نکالا جا سکتا ، ہم الیکشن لڑتے آئے ہیںاور ہمیںالیکشن لڑنے آتے ہیں لیکن یہ ریہرسل کیوں ہو رہی ہے جبکہ اب ایک سال سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے ۔

آپ ووٹ کے فیصلے کا انتظار کیوں نہیں کرتے ، اگر ہم چاہتے تو آصف علی زرداری کی حکومت دو سے تین سال میں جا سکتی تھی لیکن ہم نے ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ ہم بڑے ادب سے اور پوری آواز سے تردید کرتے ہیں کہ ہم گارڈ فادڑ نہیں ، ہم جرائم پیشہ گروہ نہیں ہمیں ایسا نہ کہا جائے اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت لایا جائے نہیں تو ہم کہیں گے کہ آپ کے الفاظ میرے بارے میں مائنڈ سیٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی اگلا مرحلہ سامنے ہے ،ہم ملک میں آئین کی بالا دستی چاہتے ہیں ، ہمیں حالات کا ادراک کرنا چاہیے نہیں تو ملک مسائل کا شکار ہوگا ۔ میں عاجزی سے اورانکسار سے درخواست کر رہا ہوں اور کوشش ہے کہ یہ تاثر نہ جائے کہ میرا رویہ جارحانہ ہے بلکہ عاجزی سے عوام کو بتایا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ، انصاف کا معاملہ نہیں ہو رہا اور ہمارے تحفظات کو نہیں سنا جارہا ۔

انہوں نے کہاکہ ملک دشمن ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں وہ پاکستان کو شام او رمصر بنانا چاہتے ہیں اور یہ خطرناک کھیل ہے ۔ پہلے بھی اکثریت کا فیصلہ نہیں مانا گیا اور پاکستان ٹوٹ گیا ، ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے ، اکثریت پر اقلیت کے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ، آپ انتظار کیوں نہیں کرتے ، آپ کو کس بات کی جلد ی ہے اور آپ بارہ مہینے بھی نہیں نکا ل سکتے ، اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے ۔ کیا ہم سب سیاستدان اپنے ماتھے پر لکھ دیں کہ ہم چور ہیں ،یہاں چار بار مارشل لاء آیا لیکن پاکستان کا کباڑہ ہو گیا ۔ کیا یہاں ملائیکہ کی حکومت لائیں گے ایسے خواب دیکھنا بند کر دئیے جائیں ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات