بھارتی لابی کا ورا: پاکستان کی غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے امریکی کانگریس میں بل پیش کر دیا گیا-

بھارت کے مقابلے پاکستان کا سب سے کمزور دفاع سفارتی محاذ پر ہے- دفتر خارجہ اور مختلف ممالک میں سفیر پیشہ ور سفارت کار نہیں بلکہ سفارشی اور حکومتوں کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں -عالمی امور کے ماہرین کا اظہار خیال

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 24 جون 2017 11:23

بھارتی لابی کا ورا: پاکستان کی غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنے ..
واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 جون ۔2017ء) پاکستان کی اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے کانگریس میں ایک دو فریقی بل پیش کر دیا گیا ہے۔بھارتی لابی کے زیراثر دو امریکی قانون سازوں کانگریس میں ریپبلکن کے نمائندے ٹیڈ پو اور ڈیموکریٹ کے نمائندے رک نولان نے یہ بل پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ چونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف موثرطریقے سے جنگ لڑنے میں ناکام ہوچکا ہے لہٰذا پاکستان امریکی مالی اور فوجی امداد کا مستحق نہیں ہے۔

تاہم اس بل کا بنیادی مقصد 2004 میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں امریکا کی مدد کرنے پر اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کی جانب سے پاکستان کو حاصل ہونے والی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی کانگریس میں اگر یہ بل منظور کر لیا جاتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے فوجی روابط کو شدید دھچکا لگے گا مگر اس بل کی منظوری کے امکانات انتہائی کم ہیں کیونکہ امریکی محکمہ دفاع‘سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ امریکی ادارے پہلے ہی پاکستانی کی اہمیت پر بیانات دے چکے ہیں۔

تاہم ماہرین اس بل کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی ناکامی اور بھارتی سفارت کاری کی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے کمزور دفاع سفارتی محاذ پر ہے کیونکہ دفتر خارجہ اور مختلف ممالک میں سفیر پیشہ ور سفارت کار نہیں بلکہ سفارشی اور حکومتوں کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں -پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت سے بین الاقوامی امداد اور دفاعی تعاون جیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ غیر نیٹو اتحادی ممالک فوجی سازو سامان کی تیزی سے منتقلی اور ہتھیاروں کی فروخت کے عمل کے اہل ہوتے ہیں۔

غیر نیٹو اتحادی حیثیت کا حامل ملک امریکی قرض ضمانتی پروگرام سے بھی مستفید ہو سکتا ہے جس کے مطابق ہتھیاروں کی برآمدات میں نجی بینک بھی قرض دے سکتا ہے۔ایک غیر نیٹو اتحادی ملک امریکی فوجی سامان کا ذخیرہ بھی کر سکتا ہے اور دفاعی ترقیاتی پروگراموں میں بھی حصہ لے سکتا ہے اس کے علاوہ وہ ملک جدید ترین ہتیار بھی خرید سکتا ہے۔ٹیڈ پو کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے ہاتھوں پر لگے مبینہ امریکی خون کا حساب دینا ہوگا۔

اٹھارہویں صدی کے امریکی جنرل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان امریکی فوج کا بینیڈکٹ آرنلڈ اتحادی کی طرح کام کر رہا ہے۔ٹیڈ پو اس وقت امریکی خارجہ کمیٹی کے رکن ہیں اور ذیلی کمیٹی برائے دہشت گردی، عدم پھیلاو¿ اور تجارت کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ہمیشہ ہی پاکستان مخالف قرارد کانگریس میں پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

واشنگٹن میں موجود ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت واشنگٹن میں لابنگ پر خطیر رقم ہی خرچ نہیں کررہا بلکہ ایک مضبوط بھارتی کمیونٹی دفترخارجہ‘وائٹ ہاﺅس اور امریکا کے مختلف فیصلہ سازاداروں میں کام کررہی ہے جبکہ بھارتی سفارت خانہ بھی ہمیشہ متحرک رہتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا سفارتی محاذانتہائی کمزور ہے اور اہم ممالک میں وزارت خارجہ کے تجربہ کار اور پیشہ ور افسران کو سفیر مقررکرنے کی بجائے ریٹائرڈ فوجی وسول افسران اور برسراقتدار جماعت کے سفارشیوں کو سفیر مقررکیا جاتا ہے-ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنا طرزعمل بدلنا ہوگا اور ایک مکمل پیشہ وروزارت خارجہ اسلام آباد کی اہم ترین ضرورت ہے-واضح رہے کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نون چار سالوں میں وزیرخارجہ بھی مقرر نہیں کرپائی اور وزیراعظم وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر دوریٹائرڈ ”بزرگان“کے ذریعے وزارت خارجہ کو چلارہے ہیں جن کی ذمہ داری ملک کے دنیا کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینا ہے مگر ان کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہتے ہیں-