حکومت وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپنگ کی تحقیقات کیلئے انٹیلی جنس بیورو سمیت ہر حکومتی ادارے سے مدد لے سکتی ہے

کسی کی طرف سے بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنا غیر قانونی ہے‘ آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان اچھے آفیسر ہیں‘ حسین نواز کی تصویر لیک معاملے میں ملوث شخص کا نام منظر عام پر آنا چاہئے‘ پیپلز پارٹی دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس کی انٹیلی جنس بیورو مسلسل چیکنگ کرتا تھا تاکہ کوئی بھی وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ نہ کرسکے سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) شعیب سڈل کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعہ 23 جون 2017 15:53

حکومت وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپنگ کی تحقیقات کیلئے انٹیلی جنس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 جون2017ء) سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) شعیب سڈل نے کہا ہے کہ حکومت وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپنگ کے الزام کی تحقیقات کے لئے انٹیلی جنس بیورو سمیت ہر حکومتی ادارے سے مدد لے سکتی ہے‘ کسی کی طرف سے بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنا غیر قانونی ہے‘ آئی بی کے موجودہ سربراہ آفتاب سلطان بہت اچھے آفیسر ہیں‘ حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے میں ملوث شخص کا نام منظر عام پر آنا چاہئے‘ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس کی انٹیلی جنس بیورو مسلسل چیکنگ کرتا تھا تاکہ کوئی بھی وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ نہ کرسکے۔

ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں شعیب سڈل نے کہا کہ پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی طرف سے آئی بی پر کچھ الزامات لگائے گئے ہیں میں اس کی حقیقت نہیں جانتا کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے۔

(جاری ہے)

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آفتاب سلطان کو حکومت نے مدت ملازمت میں تین مرتبہ توسیع دی ہے انہوں نے کہا کہ آفتاب سلطان نے میرے ساتھ کام نہیں کیا وہ میرے سے چار سال جونیئر تھے تاہم پولیس میں وہ اچھی شہرت کے حامل افسران میں شمار کئے جاتے تھے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ کئے جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے تاہم حکومت اس شبہ کی بنیاد پر آئی بی سمیت کسی بھی حکومتی ادارے کی مدد لے سکتی ہے تاکہ حقیقت پتہ چلائی جاسکے کہ کون اور کیوں وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ کرارہا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب وہ پیپلز پارٹی کے دور میں آئی بی کے سربراہ تھے تو اس وقت وزیراعظم ہائوس کی آئی بی مسلسل چیکنگ کرتی تھی تاکہ کوئی بھی وہاں ایسی ڈیوائس نہ رکھ سکے جس سے وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو ٹیپ کی جاسکے اور آئی بی ہر دور حکومت میں ایسا کرتی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آئی بی کے فنڈز کا آڈٹ اس طرح سے نہیں ہوتا جس طرح دیگر حکومتی اداروں کا ہوتا ہے کیونکہ بعض نیشنل سکیورٹیز کے معاملے ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لایا جانا ملکی مفاد میں نہیں ہوتا تاہم کسی حد تک آڈٹ کیبنٹ سیکرٹری کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا۔ عدالتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو فوری سزائیں دینے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔