پاناما عملدرآمد کیس ، جے آئی ٹی نے 2 کتابوں پر مشتمل تیسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی

عدالت کا 10 جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم، جے آئی ٹی کا سیکیورٹی تحفظات کا اظہار

جمعرات 22 جون 2017 16:03

پاناما عملدرآمد کیس ، جے آئی ٹی نے 2 کتابوں پر مشتمل تیسری پیش رفت رپورٹ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 جون2017ء) پاناما عملدرآمد کیس میں جے آئی ٹی نے 2 کتابوں پر مشتمل اپنی تیسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرا دی، عدالت نے جے آئی ٹی کو 10 جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا،جے آئی ٹی سربراہ نے سپریم کورٹ میں سیکیورٹی تحفظات کا اظہار کردیا،جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ افسوس ہے ادارے جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کر رہے ہے اور نہ ہی مطلوب ریکارڈ فراہم کیا جارہا ہے ، کچھ اداروں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کے پاس ریکارڈ موجود نہیں ہے،جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تحقیقاتی ٹیم سے عدم تعاون پر چیئرمین ایف بی آر کو سمن جاری کئے جائیں، اداروں کو کسی ایک شخص کو بچانے کے بجائے قومی مفاد کے لئے کام کرنا چاہیئے، کیا ایس ای سی پی کے خلاف ریکارڈٹیمپرنگ کی انکوائری کی گئی تھی، یہ قابل افسوس بات ہے۔

(جاری ہے)

ادارے اپنے طور پر کیوں تعاون نہیں کر رہے،اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کو ایف بی آر سے تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ تفصیلات کے مطابق پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنی تیسری کارکردگی رپورٹ پیش کی، جے آئی ٹی کی سیل رپورٹ 2 کتابوں پر مشتمل ہے۔

جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے واجد ضیا سے استفسار کیا کہ کیا ایس ای سی پی اور ایف بی آر نے ریکارڈ فراہم کر دیا ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ ایس ای سی پی نے کچھ ریکارڈ فراہم کیا ہے جبکہ ایف بی آر نے تاحال ریکارڈ فراہم نہیں کرایا، تین بار وضاحت مانگی گئی لیکن جواب ملا کہ ریکارڈ موجود نہیں، مکمل ریکارڈ اب تک فراہم نہیں کیا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ ریکارڈ نہ ملنے کا معاملہ نوٹس میں کیوں نہیں لیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایسا نہیں چلے گا، اگر ایف بی آر کے پاس ریکارڈ نہیں بتا دیں، ریکارڈ چوری ہو گیا، گم ہو گیا یا کوئی اور لے گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ کو کیوں بار بار بلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے، ہم نے اداروں کو سپریم کورٹ کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا تھا، ادارے ایک دوسرے کیوں تعاون نہیں کرتی اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے آئی ٹی دستاویزات کی فہرست فراہم کرے کوشش کروں گا کہ تمام ریکارڈ فراہم کروں۔

واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ ایف بی آر کو واضح کر دیا تھا کہ کونسا ریکارڈ چاہیئے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو ریکارڈ مانگا اس کی تفصیل پیش کریں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ریکارڈ ٹمپرنگ کی انکوائری شروع ہو چکی ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا جی انکوائری شروع ہو چکی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ پوچھا کہ انکوائری میں کتنا وقت لگے گا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا زیادہ وقت نہیں لگے گا صرف ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے، ریکارڈ موجود ہوا تو ضرور ملے گا کیونکہ ریکارڈ صرف مخصوص وقت کا مرتب رکھا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات ایف بی آر نے عدالت کو کیوں نہیں بتائی، ایف بی آر معاملے پر خاموش کیوں بیٹھا ہے، جے آئی ٹی ایف بی آر سے مطلوبہ دستاویزات کی فہرست کل تک جمع کرائے۔ عدالت نے جے آئی ٹی سے 10 رپورٹ تک حتمی رپورٹ طلب کر لی۔سپریم کورٹ نے تصویر لیکس کے معاملے پر رپورٹ اور شخص کا نام پبلک کرنے سے متعلق وفاقی حکومت سے موقف طلب کرتے ہوئے کہا کہ درخواست پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے واجد ضیا سے سوال کیا کہ کیا وجوہات ہیں تصویر لیک کرنے والے کا نام سامنے نہیں لایا گیا، جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تصویر لیک کرنے والے کا نام رپورٹ میں شامل نہیں کیا۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آر کی جانب سے ریکارڈ فراہم نہ کرنے کی شکایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کو ایف بی آر سے تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ ریکارڈ، قانون اور کتابوں کو مدنظر رکھ کر دیا جاتا ہے، فیصلہ کرتے ہوئے اخبارات کو نہیں دیکھتے۔