لاہور ،ر ہائی کورٹ میں شروع ہونے والا انٹر پرائز آئی ٹی سسٹم ہی صوبائی عدلیہ کا مستقبل ہے،جسٹس سید منصور علی شاہ

کہ انٹرپرائز انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم ایک جدید ترین نظام ہے جو وکلاء اور عام سائلین کی سہولت کیلئے شروع کیا گیا ،چیف جسٹس ہائی کورٹ

پیر 19 جون 2017 20:33

لاہور ،ر ہائی کورٹ میں شروع ہونے والا انٹر پرائز آئی ٹی سسٹم ہی صوبائی ..
اہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 جون2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں شروع ہونے والا انٹر پرائز آئی ٹی سسٹم ہی صوبائی عدلیہ کا مستقبل ہے، ہم جانتے ہیں اس نظام کے آغاز میں کچھ مشکلات درپیش ہیں لیکن کسی بھی نظام کو سٹریم لائن ہونے میں وقت لگتا ہے، وکلاء کے مثبت تعاون کی بدولت اس سسٹم سمیت تمام ایشوز کو حل کیا جائے گا۔

فاضل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے ہمراہ میڈیا نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس موقع پر بار کے صدر چودھری ذوالفقار علی، نائب صدر راشد لودھی، سیکرٹری عامرسعید راں، فنانس سیکرٹری ظہیر بٹ کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر قریشی اور رجسٹرار سید خورشید انور رضوی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انٹرپرائز انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم ایک جدید ترین نظام ہے جو وکلاء اور عام سائلین کی سہولت کیلئے شروع کیا گیا ہے، یہ سسٹم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے جس پر گزشتہ تین سال تک کام کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ادارے میں نیا نظام متعارف کرواتے وقت ادارے کو بندکیاجاتا ہے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے کام نوعیت کی وجہ سے مکمل بند کرنا ممکن نہیں تھا، اس لئے چلتے ہوئے نظام میں نئے نظام کو شامل کرنا تھوڑا مشکل کام ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ کسی بھی نظام کے آغاز میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم وکلاء و سائلین کی مشکلات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور ہم ان مشکلات کیلئے ان سے معذرت خواہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم وکلاء اور سائلین کو مکمل یقین دلاتے ہیں کہ اس آئی ٹی سسٹم کی تمام خرابیاں عنقریب ختم ہو جائیں گے اور اس جدید سسٹم کے ثمرات سائلین تک پہنچیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور لاہور ہائی کورٹ آئی ٹی سیل کی ٹیمیں دن رات اس سسٹم پر کام کررہی ہیں اورہمارے لئے یہ بھی خوش آئندہ ہے کہ اگلے ماہ سے لاہور ہائی کورٹ میں موسم گرما کی تعطیلات شروع ہورہی ہیںاور چھٹیوںمیں کام کم ہونے کی بدولت ہم اس سسٹم کو بہت جلد ہم آہنگ بنا لیں گے۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سسٹم صرف لاہور ہائی کورٹ یا چیف جسٹس کا نہیں ہے، اس میں بار کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا بنچ کا۔اس لئے آئی ٹی سسٹم اور وکلاء کو درپیش دیگر مسائل کے حل کیلئے بنچ اور بار پر مشتمل ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے چیف جسٹس اور جسٹس علی اکبر قریشی، بار کی جانب سے صدر اور سیکرٹری اور دو پروفیشنل غیر سیاسی وکلاء ایڈووکیٹ ظفر اقبال کلانوری اور بیرسٹر سلمان صفد ر اس کمیٹی کا حصہ ہونگے، ورکنگ کمیٹی روزانہ کی بنیادپر ملاقات کرے گی اور وکلاء کو درپیش تمام مسائل کو حل کرے گی۔

فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس فائل کرتے ہوئے وکلاء کی جانب سے بار بار شناختی کارڈ نمبر کی فراہمی بھی ایک مسئلہ تھی، اس کیلئے ہم چارسے پانچ ہندسوں پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ نمبر شروع کررہے ہیں، یہ نمبر سی سی نمبرسے اس لئے بھی مختلف ہوگا کہ سی سی نمبر محض لاہور ہائی کورٹ پرنسپل سیٹ کیلئے ہوتا تھا ، جبکہ علاقائی بنچوں پر مختلف نمبر ہوتے تھے جبکہ لاہور ہائی کورٹ نمبرلاہور ہائی کورٹ لاہور اور تینوں علاقائی بنچوں پر یکساں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وکلاء کی جانب سے الیکٹرانک سٹیمپنگ کا بھی مسئلہ سامنے آیا،پنجاب بنک کی جانب سے سٹیمپ پیپرز کی بروقت فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات وقت پرفائل نہیں ہورہے تھے، اس کے حل کیلئے پنجاب بنک انتظامیہ سے بات ہوئی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سٹیمپ پیپر کی قیمت ادا کرنے پر بنک ایک رسید دے گا جس کو کیس کے ساتھ لف کر کے کیس فائل کیا جاسکے گا جبکہ سٹیمپ پیپر بعد میںکیس کے ساتھ منسلک کیاجاسکے گا۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ نئی چیزیں اورنئے نظام کو ماحول اور حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں انہیں وقت دینا چاہیے، کھلے دل کے ساتھ مسائل کے سامنا کرنا چاہیے اور اگر کوئی ایشوز ہوں تو گفت و شنید سے حل کئے جانے چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مثبت سوچ کے ساتھ خود بھی آگے بڑھنا ہے اور اس ادارے کو بھی آگے لے کر جانا ہے۔

اس موقع پر صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن چودھری ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کسی بھی نظام کو شروع کرتے وقت مسائل جنم لیتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیںکہ یہ نظام بلاشبہ ایک انقلابی نظام ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اور سائلین کے مسائل کا حل بار کی ذمہ داری ہے اور وکلاء و سائلین کی جانب سے ہمیں پریشر کا سامنا تھا جس کی بدولت ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تاہم ہم فاضل چیف جسٹس کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہمیں اعتماد میں لیا۔

انہوں نے کہا کہ بار اوربنچ مل جل کر اپنے تمام مسائل حل کریں گے، موجودہ نظام سے وکلاء اور سائلین کیلئے بہت آسانیاں پیدا ہونگی اور بہت جلد ہم اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔ای سٹیمپنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بنک لاہورہائی کورٹ برانچ میں انتظامیہ کی جانب سے دو کی بجائے پانچ بنکرز بٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور وکلاء رسید کی بنیاد پرکیس بھی فائل کر سکیں گے، جس سے وکلاء کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

نائب صدر راشد لودھی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ وکلاء کمیونٹی میں ویڑنری اورریفارم جج کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں، فاضل چیف جسٹس کے ویڑن کا نا صرف میں اور بار کی کابینہ بلکہ پوری ہائی کورٹ بار معترف ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں فاضل چیف جسٹس وکلاء اور سائلین کی فلاح و بہبود اور آسانیوں کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں لیکن کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہماری جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں ،تاہم ہمیں فاضل چیف جسٹس اور انکی ٹیم کی قابلیت پر مکمل بھروسہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بنچ اور بار مل کر نظام عدل میں اصلاحات کے عمل کو آگے لے کر چلیں گے اورفاضل چیف جسٹس کے تمام اقدامات میں بار کا بھرپور تعاون شامل حال رہے گا۔بار کے سیکرٹری عامر سعید راں اور فنانس سیکرٹری ظہیر بٹ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم فاضل چیف جسٹس کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارے تمام مسائل اور معاملات کو سنا اور سمجھا ، ہم انکے ہر اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اوربنچ اور بار کے درمیان تمام معاملات ڈائیلاگ کے ذریعے حل کر لئے جائیں گے۔