پاناما کیس ،سپریم کورٹ کا ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے کا جائزہ لینے کا حکم

جے آئی ٹی میڈیا سمیت کسی کی باتوں پر کان نہ دھرے بلکہ اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھے ،جے آئی ٹی کو دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں،جے آئی ٹی سے عدم تعاون کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے،چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں،کیا آئی بی ہماراڈیٹا بھی اکھٹا کرتی ہی ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی جے آئی ٹی مقرر کی تھی کس نے اختیار دیاجے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کیا جائے ،میڈیااور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں پبلک آفس ہولڈر افراد عدلیہ پرحملہ آور ہورہے ہیں 8لوگ مختلف چینلز سے جے آئی ٹی پر حملہ آور ہیں عدالت صبر کررہی ہے ہمیں اکسایا نہ جائے،صرف مخصوص نہیں اب تو ہر چیز لیک ہورہی ہے،تمام چیزوں پر نظر رکھی ہوئی ہے جسٹس شیخ عظمت سعید ،جسٹس اعجاز افضل اورجسٹس اعجازالاحسن کے جے آئی ٹی کی درخوات کی سماعت کے موقع پر ریمارکس

پیر 19 جون 2017 18:08

پاناما کیس ،سپریم کورٹ کا ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 جون2017ء) سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے جے آئی ٹی کو اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی میڈیا سمیت کسی کی باتوں پر کان نہ دھرئے،جے آئی ٹی کو دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں،جے آئی ٹی سے عدم تعاون کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے،چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں،کیا آئی بی ہماراڈیٹا بھی اکھٹا کرتی ہی ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی جے آئی ٹی مقرر کی تھی کس نے اختیار دیاجے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کیا جائے ،میڈیااور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں پبلک آفس ہولڈر افراد عدلیہ پرحملہ آور ہورہے ہیں 8لوگ مختلف چینلز سے جے آئی ٹی پر حملہ آور ہیں عدالت صبر کررہی ہے ہمیں اکسایا نہ جائے ۔

(جاری ہے)

پیر کو سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز ا فضل کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔فواد چودھری نے کہا کہ اجازت ہوتو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ عوام کو تاثر غلط جارہا ہے۔منظور چیزیں لیک ہوری ہیں۔جسٹس اعجازالا حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بھی ایسی شکایت کی ہے۔مناسب حکم جاری کریں گے۔

صرف مخصوص نہیں اب تو ہر چیز لیک ہورہی ہے۔تمام چیزوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ معاملہ آپ کا نہیں جے آ ئی ٹی اور عدالت کا ہے۔عدالت یہ معاملہ خود بھی دیکھ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ایس ای سی پی نے الزامات کی تردید کی ہے۔جو اب میں لکھا ہے الزامات بادی النظر میں غلط ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کیا ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا الزام جرم نہیں ایف آئی آر بھی الزام پر کاٹی جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ دفعہ 468 اور دیگر مقدمات کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ انتہائی سنگین الزامات لگائے گئے،میڈیااور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں۔حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا ۔ہمیں کسی کے کہنیسے کوئی ڈر نہیں۔زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے۔خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے ۔چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں ۔

آپ نے سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ الزامات غلط ہیں۔آپ سے کسی کی طرف داری کی امید نہیں ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا ذاتی جواب نہیں تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ سے کافی مایوس ہوئے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہااداروں کی جانب سے ملنے والے جواب دیئے تھے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ہراساں کرنے کا بھی آئی بی پر الزام لگایا۔

جسٹس اعجاز الا حسن آئی بی نے صرف الزامات کی تردید کی شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نے کہا کی ڈی جی آئی بی نے ایک خط بھی لکھا ہے۔کیا آئی بی ہماراڈیٹا بھی اکھٹا کرتی ہی کیسے مان لوں میری مانیٹرنگ نہیںہوتی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی بی کو یہ اختیار کس قانون کے تحت ملا۔عدالت نے کہا کہ ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی۔جے آئی ٹی مقرر کی تھی۔

کس نے اختیار دیاجے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کیا جائے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ کوئی سائیکل نہیں جوہر چیز کو لیک کا نام دیا جائے ۔یہ معلومات باقاعدہ جاری کی جاتی ہیں۔آئی بی نے اعتراف جرم کیا ہے۔آئی بی ریاست کے لیے کام کرتی ہے یا کسی فرد کے لیی اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیں۔عدالت نے کہا کہ کیا آئی بی، ایس ای سی پی سب ہی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی جی آئی بی کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ایسے افراد کے خلاف فوجداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کرسکتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بہت سے سوالات پوچھنے کاوقت آگیا ہے۔

بتانا ہوگا آئی بی کا کام اور منیڈیٹ کیا ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر افراد عدلیہ پرحملہ آور ہورہے ہیں ۔عدالت نے کہا کہ 8لوگ مختلف چینلز سے جے آئی ٹی پر حملہ آور ہیں۔عدالت صبر کررہی ہے۔ہمیں اکسایا نہ جائے۔وقت آنے پر اس حوالے سے حکم جاری کریں گے۔جے آئی ٹی کو ہراساں کرنے کا عمل رکنا چاہیے۔ایسانہ ہو کوئی ناخوش گوار حکم جاری کریں۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔جبکہ متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی کرکے روپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔عدالت نے کہا ڈی جی آئی بی کے معاملے پر اٹارنی جنرل معاونت کریں۔اٹارنی جنرل کی معاونت سے معاملہ منطقی انجام تک پہچائیں گے۔ضرورت پڑی تو ڈی جی آئی بی کوبھی طلب کیا جائے گا۔جے آئی ٹی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھے۔جے آئی ٹی کو دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔جے آئی ٹی میڈیا سمیت کسی کی باتوں پر کان نہ دھرئے۔جے آئی ٹی سے عدم تعاون کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔( خ ف)