ایک نہیں سو مرتبہ احتساب کرو، یہ مٹی ہماری ہے، ایسے باپ کے بیٹے ہیں جو صادق او رامین کے نام سے جانے جاتے ہیں‘شہبازشریف

ملک کی تاریخ میں پہلی بار منتخب وزیراعظم نوازشریف نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کیا ہے آج ایک بار پھر تاریخ رقم ہوئی ہے کہ کسی صوبے کا وزیراعلیٰ پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا ہے مجھے کمر درد کا پرانا عارضہ لاحق ہے ، میں نے اپنی اس تکلیف کو بہانہ نہیں بنایا اور نہ ہی راولپنڈی کے کسی ہسپتال میں داخل ہوا عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ،جے آئی ٹی میں پیش ہو کر عاجزی کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے شریف خاندان کا احتساب پہلی بار نہیں ہوا، بھٹو، ان کی صاحبزادی اور ڈکٹیٹر مشرف کے دور حکومت میں احتساب کا سامنا کرنا پڑا وسائل لوٹنے ،قرضے معاف کرانیوالے ، کینیڈا اور دبئی میں اپنے کاروبار اور محلات کھڑے کرنیوالے اشرافیہ کہلاتے ہیں‘وزیراعلیٰ پنجاب کی جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 17 جون 2017 21:35

ایک نہیں سو مرتبہ احتساب کرو، یہ مٹی ہماری ہے، ایسے باپ کے بیٹے ہیں ..
اسلام آباد/ لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جون2017ء) وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ نیا باب رقم ہوا ہے کہ منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف نے سپریم کورٹ کے تحت بننے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کیا ہے اور آج ایک بار پھر تاریخ رقم ہوئی ہے کہ کسی صوبے کا وزیراعلیٰ اور عوام کا خادم پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا ہے۔

وزیراعظم اور میں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر قانون کی حکمرانی کی حقیر خدمت کی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سیاستدانوں کے دلوں میں عدالت اور قانون کا بڑا احترام موجود ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو بندوق کی طاقت سے اقتدار پر شبخون مارتے ہیں، وہ عدالت اور قانون کے فیصلوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور ان کا عدالت اور قانون کے حوالے سے رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔

(جاری ہے)

مجھے کمر درد کا پرانا عارضہ لاحق ہے اور میں نے اپنی اس تکلیف کو بہانہ نہیں بنایا اور نہ ہی راولپنڈی کے کسی ہسپتال میں داخل ہوا اور نہ ہی لندن میں اپنے معالج کے پاس پہنچا۔ ہم عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور ہم نے جے آئی ٹی میں پیش ہو کر عاجزی کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سامنے رہنی چاہیئے کہ شریف خاندان کا احتساب پہلی بار نہیں ہو رہا۔

2 جنوری 1972 کی ایک سرد شام تھی جب اتفاق فائونڈری چھین لی گئی اور یہ وہ ادارہ تھا جس کو ہمارے والد اور ان کے بھائیوں نے کسی جم خانہ یا پنجاب کلب کی شام کی پارٹی میں لائسنس حاصل کرکے عروج تک نہیں پہنچایا تھا اور نہ ہی یہ کسی پبلک ریلیشننگ کے نتیجے میں لائسنس ملا تھا، بلکہ میرے والد اور ان کے بھائیوں سے محنت مزدوری کرکے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔

1930 کی دہائی میں شروع ہونے والا سفر 1960 کے عشرے میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انجینئرنگ اور لوہے کا کارخانہ بن چکا تھا۔ اس ادارے میں دفاعی ساز و سامان تیار ہوتا تھا جسے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ہماری جری و بہادر افواج نے دشمن کے خلاف وطن عزیز کے دفاع میں استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اور نوازشریف ایسے باپ کے بیٹے ہیں امانت، دیانت جن کی پہچان تھی اور وہ امین جانے جاتے تھے۔

بینک ان کے نام پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتے ہوئے قرضے دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا احتساب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا جن کی نیشنلائزڈ پالیسی کے تحت اتفاق فائونڈری کو چھین لیا گیا۔ اس کی پیداوار ختم ہوئی جس سے 10 ہزار مزدور بیروزگار ہوئے۔ پھر بے نظیر بھٹو کے دور 88-90 کے دوران ہمارے خاندان کا دوسرا احتساب ہوا۔ ہمارے کاروبار کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

تیسری مرتبہ 1993-96 کے دوران ہمارا احتساب ہوا۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہمارا ناطقہ بند کرنے اور فیکٹریوں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جوناتھن جہاز کو کراچی کی بندرگاہ پر روکا گیا جس سے ہمارے کاروبار کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ بے نظیر کے اسی دور حکومت میں میرے والد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ہمارا چوتھا احتساب ملٹری ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہوا۔

وزیراعظم محمد نوازشریف اور مجھے ہتھکڑیاں لگیں۔ اب ہمارا پانچواں احتساب ہو رہا ہے۔ ہمارا پہلے بھی احتساب ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے مگر یہ احتساب ہمارے خاندان کے ذاتی کاروبار کا ہو رہا ہے۔ ہم پر قومی وسائل کی خردبرد، ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں، میٹرو بس یا سڑکوں کے منصوبوں میں ایک دھیلے کی بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ ہماری حکومت نے اربوں ڈالر کے پاور پراجیکٹس بنائے ہیں۔

اورنج لائن اور توانائی کے منصوبوں میں 200 ارب روپے کی بچت کی ہے جو قوم کی بڑی خدمت ہے۔ ہمارا احتساب کسی سرکاری خردبرد یا کرپشن کا نہیں ہو رہا۔ ہم نے نہ پہلے کبھی کرپشن کی، نہ آج اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ہم نے اپنے کاروبار کیلئے بینکوں کے پونے چھ ارب روپے قرض کی ایک ایک پائی ادا کی اور اصل زر کے ساتھ سود میں بھی ایک پیسے کی کمی نہیں کرائی جبکہ دوسری جانب بیوائوں، غریبوں اورمسکینوں کے وسائل لوٹنے اور سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرانے والے ہیں جنہوں نے کینیڈا اور دبئی میں اپنے کاروبار اور محلات کھڑے کئے اور آج اشرافیہ بھی کہلاتے ہیں۔

این آئی سی ایل ، پنجاب بینک اور دیگر قومی اداروں میں ڈاکے ڈالنے والے بھی ہیں۔ رینٹل پاور پراجیکٹس نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا۔ نندی پور کے منصوبے میں قوم کو50 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ آج بھی رینگ رہا ہے۔ یہ وہ کرپشن کے کیسز ہیں جس نے قوم کو کنگال کر دیا ہے۔ اگر آج کوئی غریب تعلیم یا صحت کی سہولتوں سے محروم ہے تو اس کی وجہ یہی کرپشن کی داستانیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک نہیں سو مرتبہ احتساب کرو، یہ مٹی ہماری ہے، ایسے باپ کے بیٹے ہیں جو صادق او رامین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہمیں وطن کی مٹی سے پیار ہے، یہ ہماری اور آپ سب کی مٹی ہے اور ہمیں مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے۔ وزیراعلیٰ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ شعر بھی پڑھا:مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے… وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔

وزیراعلیٰ نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنے علم کے مطابق جے آئی ٹی کے سوالوں کا جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی کے محنت اور دیانتداری سے بنائے گئے کاروبار کو بھٹو، ان کی صاحبزادی اور مشرف حکومت نے تباہ کیا۔ ہمارے خاندان کا کئی بار احتساب ہو چکا ہے اور یہ احتساب کرپشن نہیں بلکہ ذاتی کاروبار کا ہوا ہے ۔

اور آج پھر ہمارا خاندان ذاتی کاروبار کا حساب دے رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ خوف خدا کریں، آج تک کسی سڑک، پانی، میٹرو، توانائی کے منصوبے یا کسی اور پراجیکٹ سے کرپشن نکلی ہو تو میں قصور وار ہوں۔ ہم احتساب کیلئے کل بھی حاضر تھے، آج بھی حاضر ہیں۔ احتساب ہمارا اب بھی ہو رہا ہے اور ہم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔