ْپاکستان کا قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا کمرشل معاہدہ ہے،

سیاسی حالات اثر انداز نہیں ہوں گے، ڈالر میں لین دین میں رکاوٹ اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد ہونے کے خدشات کی وجہ سے گیس پائپ لائن منصوبے پر کام آگے نہیں بڑھ رہا، گیس کے کمرشل میٹرز پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے، گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا، موجودہ حکومت کے دور میں سسٹم میں 944 ایم ایم سی ایف ڈی گیس اور 32 ہزار بیرل یومیہ سے زائد تیل کا اضافہ ہوا، سندھ میں تیل و گیس کے پانچ نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کا پریس کانفرنس سے خطاب

پیر 12 جون 2017 15:05

ْپاکستان کا قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا کمرشل معاہدہ ہے،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جون2017ء) وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان کا قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا کمرشل معاہدہ ہے، سیاسی حالات اس پر اثر انداز نہیں ہوں گے، تمام صوبوں کے درمیان آئین کے مطابق گیس تقسیم کر رہے ہیں، ڈالر میں لین دین میں رکاوٹ اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد ہونے کے خدشات کی وجہ سے گیس پائپ لائن منصوبے پر کام آگے نہیں بڑھ رہا، گیس کے کمرشل میٹرز پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے، گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا، موجودہ حکومت کے دور میں سسٹم میں 944 ایم ایم سی ایف ڈی گیس اور 32 ہزار بیرل یومیہ سے زائد تیل کا اضافہ ہوا ہے، سندھ میں تیل و گیس کے پانچ نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل نے کہا کہ قطر سے ہم یومیہ 600 مکعب فٹ ایل این جی درآمد کر رہے ہیں اور یہ ایل این جی بجلی کے شعبہ، صنعتوں، کھاد فیکٹریوں، سی این جی اور کیپٹو پاور کے منصوبوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ سردیوں میں گھریلو صارفین کو بھی ایل این جی فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم ایل این جی درآمد نہیں کرتے تھے تو اس وقت ہمیں کھاد باہر سے درآمد کرنا پڑتی تھی آج ہم 6 لاکھ ٹن کھاد برآمد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایل این جی سے 1200 میگاواٹ بجلی کا ایک نیا منصوبہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کو گیس پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ پہلے صنعتوں کو دو گھنٹے یومیہ بجلی ملتی تھی اب ہم 24 گھنٹے دے رہے ہیں۔

سی این جی کا شعبہ بند ہونے والا تھا اسے بھی ایل این جی کے ذریعے بحال کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کے ساتھ پی ایس او کا کمرشل معاہدہ ہے، موجودہ سیاسی حالات کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم اگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں یا پھر قطر پر پابندیاں لگ جائیں تو اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر سے کوریا اور جاپان 60 ملین ٹن اور ہمارا ہمسایہ ملک 9 ملین ٹن ایل این جی درآمد کر رہا ہے۔

صرف ہم ہی گیس نہیں خرید رہے۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گردشی قرضہ بجلی کے شعبہ کا مسئلہ ہے تاہم پی ایس او کا گردشی قرضہ بھی 200 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کے باوجود پی ایس او کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ایل این جی کی قیمت ایک باقاعدہ طریقہ کار کے مطابق مقرر کی گئی ہے۔ جب عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ایل این جی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور جب تیل کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو اس کی قیمت میں بھی کمی آتی ہے۔

اس وقت ایل این جی سے سستا پاکستان میں کوئی ایندھن نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کو 1665 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جا رہی تھی لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد اس میں 33 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ سوئی سدرن کی گیس کی فراہمی میں 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ موسم سرما میں گیس کی طلب بڑھنے کے باوجود گیس کی قلت نہیں ہوگی۔

ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ گیس کے کمرشل میٹرز پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے۔ ایس این جی پی ایل میرٹ پر یہ کنکشن جاری کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اس وقت بھی 6 سے 8 ارب روپے کی سالانہ گیس چوری ہو رہی ہے۔ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ اس چوری کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کر رہی۔

گیس کے نئے کنکشن جاری کرنے سے گیس کی دستیابی میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ موجودہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام پر کوئی دبائو نہیں ڈالا۔ تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں اپنے معاملات میں مکمل خودمختار ہیں، ہم ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ تیل و گیس کے شعبہ میں دیگر ممالک سے بھی تعاون کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ایران ۔

پاکستان گیس پائپ لائن کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں، جب تک وہ حل نہیں ہوں گے منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ ان میں پہلا مسئلہ ڈالر کے ذریعے لین دین میں رکاوٹ اور دوسرا ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ ڈالر میں لین دین کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ایران کو ادائیگیاں نہیں کی جا سکتیں اور پابندیوں کی موجودگی میں کوئی ادارہ بھی مالی معاونت کے لئے تیار نہیں ہے۔

ایران کو ان مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آئندہ سردیوں میں ملک میں گیس کی فراہمی کی صورتحال بہتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ حکومت کی بجائے نجی شعبہ ایل این جی کے ٹرمینلز لگائے، اس سلسلے میں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں ٹرمینل لگانا چاہتی ہیں جس کے لئے مذاکرات ہو رہے ہیں اور چند ہفتے میں اچھی خبر سامنے آئے گی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں تیل و گیس کی 98 نئی دریافتیں ہوئی ہیں اور 944 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سسٹم میں شامل کی گئی ہے۔ 466 ایم ایم سی ایف ڈی گیس نئی دریافتوں اور 478 موجودہ فیلڈ سے سسٹم میں آئی ہے۔ اسی طرح 32 ہزار 343 بیرل تیل یومیہ بھی سسٹم میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے 46 نئے لائسنس جاری کئے ہیں۔

حیدر آباد سے او جی ڈی سی ایل کی فیلڈ سے 285 بیرل یومیہ تیل اور 8.66 ایم ایم سی ایف ڈی گیس، سانگھڑ میں پی پی ایل کی فیلڈ سے 310 یومیہ تیل اور 29.2 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سندھ میں ایم پی سی ایل کی فیلڈ سے 21 بیرل یومیہ تیل اور 5 ایم ایم سی ایف ڈی گیس خیرپور میں او جی ڈی سی ایل کی فیلڈ سے 20 بیرل یومیہ تیل اور 15.1 ایم ایم سی ایف ڈی گیس جبکہ خیرپور میں او ایم وی کی فیلڈ سے 11.65 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دریافت ہوئی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیشپا فیلڈ کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ کسی بھی قسم کی بدانتظامی یا بدعنوانی سامنے آئی تو کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کوئی بھی گھریلو کنکشن سفارش پر نہیں دیا۔ میرٹ پر ہی کنکشن دیئے جا رہے ہیں۔ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو 20 لاکھ گھریلو کنکشن کی فراہمی زیر التواء تھی۔

ہم نے 15 لاکھ کے قریب کنکشن دے دیئے ہیں اور موجودہ حکومت کے خاتمے تک یہ تعداد 20 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعصب درست نہیں کہ گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو کم گیس مل رہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی اعداد و شمار پیش کریں گے۔ درآمدی گیس پر تقسیم کا اثر نہیں ہوتا۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کو 2010ء میں 1174 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ملتی تھی، اب سوئی سدرن کو 1207 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے اور اس میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سوئی ناردرن کو 2010ء میں 1665 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جاتی تھی، اب 1111 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جا رہی ہے اور اس کو گیس کی فراہمی میں 33 فیصد کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے ذخائر کی دریافت سے 150 ملین ڈالر کی بچت ہوگی۔