سندھ اسمبلی ،پیرپگارا کے صاحبزادے نے کرپشن کی سزا موت تجویز کردی ،پولیس وردی کو خوف کی علامت قرار دیدیا

سندھ اسمبلی میں مالی سال 2017-18کے بجٹ پر بحث جاری، بل واجب الادا رکھنے سے بہتر ہے صارفین کو ایک مرتبہ معافی دیدی جائے،سید راشد شاہ راشدی صوبے میں بجلی بحران شدید ہے ،اپنے طور پر بحران کا خاتمہ کرسکتے ہیں ،وفاق کے تعاون کی ضرورت ہے جووہ نہیں کررہا ہے ،خورشید جونیجو اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل منظور کیا لیکن گورنر نے دستخط کرنے کی بجائے اسے واپس کردیا ہے،بل دوبارہ ایوان میں پیش کیا جائے ،ڈاکٹرکٹھومل جیون کا م مطالبہ

جمعہ 9 جون 2017 20:28

سندھ اسمبلی ،پیرپگارا کے صاحبزادے نے کرپشن کی سزا موت تجویز کردی ،پولیس ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جون2017ء) سندھ اسمبلی میں مالی سال 2017-18کے بجٹ پر بحث جاری ہے ۔مسلم لیگ (فنکشنل)کے رکن اور پیرپگارا کے صاحبزادے سید راشد شاہ راشدی نے کرپشن کی سزا موت تجویز کرتے ہوئے واپڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ اربوں کھروں روپے کے بل واجب الادا رکھنے سے بہتر ہے کہ صارفین کو ایک مرتبہ ان بلوں سے معافی دے دی جائے ۔

انہوںنے سندھ پولیس کی وردی کو خوف کی علامت قرار دیتے ہوئے اس کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔حکومتی ارکان صوبائی بجٹ میں خسارے کو وفاقی حکومت کی خامی اور نااہلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مالی خسارے کے باوجود صوبے میں 49ہزار نئی ملازمتیں فراہم کرنا پیپلزپارٹی کی عوام دوست پالیسیوں کا مظہر ہے ۔مسلم لیگ فنکشنل (ن) بجٹ کو اردو ،انگریزی اور سندھی میں پیش کرنے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس میں چینی زبان کا تڑکا لگانے کی تجویز بھی پیش کردی ۔

(جاری ہے)

سندھ اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا ۔اجلاس میں دوسرے روز بھی بجٹ 2017-18پر بحث جاری رہی ۔دوسرے روز بحث کا آغاز پیپلزپارٹی کے اقلیتی رکن پسومل نے کیا ۔انہوںنے بجٹ کو عوامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے تاریخی اور عوامی بجٹ پیش کیا ہے ۔

اسی لیے کسی کے پاس تنقید کے لیے کچھ نہیں ہے ۔پیپلزپارٹی کی غزالہ سیال نے بجٹ کو سراہا اور کہا کہ سید مراد علی شاہ نے تاریخی بجٹ پیش کیا ہے ۔پیپلزپارٹی کے خورشید جونیجو نے کہا کہ ہماری حکومت نے تعلیم کو اہمیت دی ہے اس لیے تقریباً 20فیصد بجٹ صرف تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔انہوںنے ایوان کو بتایا کہ 1985میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ میں سیم اور تھور پر قابو نہیں پایا گیا تو سندھ ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا ۔

انہوںنے کہا کہ اس وقت صوبے میں بجلی کا شدید بحران ہے اور ہم اپنے طور پر بھی اس بحران کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔اس کے لیے وفاق کے تعاون کی ضرورت ہے ۔لیکن وفاق تعاون نہیں کررہا ہے ۔سندھ میں ونڈ ،سولر اور دیگر ذرائع سے 35ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے ۔کوئلہ کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں۔انہوںنے کہا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے صوبے میں نئی ٹرانسمیشن لائن بچھانے کی ضرورت ہے ۔

پیپلزپارٹی کی خاتون رکن ارم خالد نے کہا کہ وفاقی حکومت کی خامیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے ہمارا بجٹ رواں سال خسارے کا رہا ۔49ہزار ملازمتیں دے رہے ہیں جس میں 25ہزار ملازمتیں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لیے مختص کی ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے ملازمتوں میں خواتین کے کوٹے میں بھی اضافہ کرکے اسے 15فیصد کردیا ہے ۔یہ موجودہ حکومت کا سنہرا اقدام ہے ۔

مسلم لیگ (فنکشنل)کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ۔حکومت کو اپوزیشن کی بات سننی چاہیے اور اپنا دل کشادہ رکھنا چاہیے ۔انہوںنے کہا کہ بجٹ یہاں پر انگریزی ،سندھی اور اردو میں پیش کیا گیا ہے ۔اس میں اگر کوئی چینی کا تڑکا بھی ہوتا تو بہتر ہوتا ۔چلو اب نہیں تو آئندہ سہی کیونکہ ماضی میں جو بھی حکمران آئے ہیں ۔

مغلوں نے فارسی اور انگریزوں نے انگریزی رائج کی ۔تاہم انہوںنے سندھی زبان کے فروغ کے لیے بھی کام کیا ۔بہت سا سرکاری ریکارڈ آج بھی سندھی پر مشتمل ہے ۔لیکن ہم آج تک اپنی زبان کے لیے کچھ نہیں کیا ۔انہوںنے کہا کہ کھوٹ صرف مال میں نہیں نیت میں بھی نہیں ہونا چاہیے ۔انہوںنے کہا کہ طلباء کی فیسیں معاف کرنا اور انہیں ایوارڈ دینے کا اعلان بہت اچھی بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی معیار کا کیا ہوا اور اس کی بہتری کے لیے ہم نے کیا کیا ۔

ہم نے گزشتہ بجٹ میں بچیوں کے داخلے میں اضافے کے اعلانات کیے تھے اور اس کے لیے رقم رکھی گئی اس پر کتنا علمدرآمد ہوا ۔انہوںنے کہا کہ تعلیم کے لیے بجٹ تو رکھا گیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کتنا ہوگا یہ اصل بات ہے ۔کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے اسکیمیں حاصل کی گئیں لیکن افسوس کہ اپوزیشن کے حلقوں میں آج تک کام نہیں ہوسکا اور بعض حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ اسے ایک ماہ میں مکمل کرلیں جو کام ایک سال کا ہے اسے ایک ماہ میں کیسے مکمل کیا جائے ۔

ہم نے تعلیمی ایمرجنسی لگائی لیکن وہ کہاں لگی اور اس کے کیا فوائد حاصل ہوئے ہمیں کچھ علم نہیں ہے ۔ہم پانچ سال میں اپنے بند اسکولوں کو کھول نہیں سکے اور معیار تعلیم کو بلند نہیں کرسکے ۔یہ عمل ہمارے لیے باعث شرم ہے ۔پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ (سینئر)نے بجٹ کو سراہا اور اس ضمن میں انہوںنے مختلف مدعات کے لیے رکھی گئی رقوم کو مناسب اور ضرورت کے مطابق قرار دیا ۔

مسلم لیگ (فنکشنل)کے رکن اور پیرپگارا کے صاحبزادے سید راشد شاہ راشدی نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر بظاہر اچھی تھی ۔انہوںنے کہا کہ خیرپور میں 6افراد اغوا ہوئے ہیں جن میںسے ایک بازیاب ہوا ۔پانچ ابھی تک لاپتہ ہیں ۔ہم سے اگر حلف لے کر پوچھا جائے تو ہم یہ بتانے کے لیے تیار ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس کے پاس ہیں ۔

یہ سلسلہ کب رکے گا ۔ہم نے ایمبولینس سروس کی تجویز گزشتہ سال دی تھی سنا ہے شروع ہوگئی ہے لیکن دیکھی نہیں ہے ۔واپڈا کے اربوں کھربوں روپے کے بل لوگوں پر ہیں اور وہ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں ۔ایک مرتبہ ان بلوں کو معاف کرکے ازسرنو کام شروع کیا جائے ۔اس کے بعد جو بھی بل ادا نہ کرے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔انہوںنے کہا کہ کرپشن ایک بہت بڑی بیماری ہے ۔

اس کی سزا موت کیوں نہیں رکھی جاتی ہے ۔ہمارے آقا رحمت دو عالم ﷺ نے قتل کی سزا کیوں گردن زنی کیوں رکھی اس کی وجہ یہ تھی کی معاشرے کی اصلاح کی جائے اسی طرح کرپشن کی سزا بھی سزائے موت ہونی چاہیے ۔ویسا سنا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں کرپشن کی یہی سزا ہے ۔انہوںنے کہا کہ کچے کے زمیندار جب بینکوں سے قرضہ لینے جاتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر قرضہ نہیں دیا جاتا کہ تمہاری زمین کچے پر ہے جو کبھی بھی ڈوب سکتی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔

یہ ٹیکس ہے یا بھتہ ۔ہم اگر ان کو ٹریکٹر کی خریداری کے لیے قرضہ دے سکتے ہیں اور وہ اگر قرض ادا نہ کرسکیں تو ٹریکٹر ہی ضبط کرلیں ۔انہوںنے کہا کہ 2012میں ملازمتیں دینے اور بعد میں ان ملازمتوں کی فروخت کے حوالے سے بہت چرچا سنا ۔میرے اپنے حلقے میں 80کے قریب لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے لاکھوں روپے دے کر ملازمت حاصل کی ہے ۔اب تک انہیں مستقل کیا گیا ہے اور نہ ہی پیسے واپس کیے گئے ہیں ۔

اگر ان کی ملازمتیں قانونی ہیں تو ان کو مستقل کیا جائے یا ان کی رقم واپس کی جائے ۔بہت سارے لوم اس وجہ سے پریشان ہیں ۔اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔سید راشد شاہ راشدی نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ یہاں پر تقرریاں ،تبادلے اور یہاں تک کہ سڑکوں کے سگنلز تک بک رہے ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ بھکاریوں نے سگنلز خریدے ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ شی میلز نے ٹھیکے پر لے رکھا ہے ۔

آخر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا ۔انہوںنے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے پولیس کی وردی میں تبدیلی کی تجویز دی تھی ۔کیونکہ کوئی بھی شریف آدمی پولیس کی موجودہ وردی میں دیکھ کر خوفزدہ ہونے سے رہ نہیں سکتا ہے ۔شاید ہماری تجویز کے بعد ہی پنجاب نے اپنی پولیس کی وردی تبدیل کی ۔ہماری تجویز ہے کہ یہاں بھی پولیس کی وردی تبدیل کی جائے ۔ممکن ہے کہ وردی کی تبدیلی سے ان کے دلوں میں بھی تبدیلی آجائے ۔

پیپلزپارٹی کے ڈاکٹرکٹھومل جیون نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اقلیتی کے تحفظ کے حقوق کے لیے سب سے آگے بڑھ کر کام کیا ہے اور موجودہ بجٹ میں بھی ایک خطیر رقم اقلیتوں کے لیے رکھی ہے ۔انہوںنے کہا کہ اسی اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل منظور کیا لیکن گورنر نے بل پر دستخط کرنے کی بجائے اسے واپس کردیا ہے ۔میرا مطالبہ ہے کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں یہ بل ایوان میں پیش کیا جائے کیونکہ اس بل کے قانون بننے کے بعد امید ہے کہ ہماری بچیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر اغوا کرنے کا سلسلہ رک جائے گا ۔بجٹ پر بحث میں پیپلزپارٹی کے سید غلام شاہ جیلانی نے بھی حصہ لیا اور بجٹ کو سراہتے ہوئے وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی ۔