یہودی آباد کاروں کے لیے مزید 1500 مکانوں کی منظوری

مزید تین ہزار سے زیادہ مکانوں کی تعمیر کے لیے بھی پیش رفت کی گئی ہے،ترجمان اب امن تنظیم کی گفتگو

جمعہ 9 جون 2017 14:37

یہودی آباد کاروں کے لیے مزید 1500 مکانوں کی منظوری
مقبوضہ بیت المقدس(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جون2017ء) اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے لیے مزید ڈیڑھ ہزار مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی مخالف غیر سرکاری تنظم ’’ اب امن‘‘ نے اسرائیل کے اس منصوبے کی اطلاع دی ہے۔ تنظیم کی ترجمان نے فرانسیسی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ہفتے کے دوران میں تین ہزار سے زیادہ مکانوں کی تعمیر کے لیے پیش رفت کی گئی ہے۔

اب امن کے مطابق اسرائیل نے یہودی آبادکاروں کے لیے منگل کے روز ڈیڑھ ہزار مکانوں کا منصوبہ آگے بڑھانے کا اعلان کیاتھا۔ ان کے علاوہ نو سو اور مکانات بھی تعمیر کیے جائیں گے۔اسی کمیٹی نے دوروزقبل 688 مزید مکانوں کی منظوری دی تھی۔

(جاری ہے)

اب اس منصوبے پر 60 روز کے اندر اعتراضات دائر کیے جاسکتے ہیں۔اب امن کی ڈائریکٹر مس ہیگیٹ عفران نے بتایا کہ اس ہفتے کے دوران میں کل 3178 مکانوں کی مختلف سطحوں میں منظوری دی گئی ہے۔

یہ منصوبے اب مختلف مراحل میں ہیں۔ یہ مکانات مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں میں تعمیر کیے جائیں گے۔اسرائیلی حکام نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری میں برسراقتدار آنے کے بعد سے انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی ہتھیانے کے لیے کارروائیاں تیز کررکھی ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل دریائے اردن کے مغربی کنارے کے لیے جودیا سمیریا کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے بعد میں بیت المقدس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو امریکا سمیت عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے اور ان کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔اسرائیل تورات اور زبور کے حوالوں سے بیت المقدس کو یہودیوں کے لیے خاص شہر قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا تھا کہ یہودیوں کو اس شہر میں کہیں بھی بسیرا کرنے کی اجازت ہے۔وہ یروشلم کو اپنا ابدی دارالحکومت بھی قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی اس مقدس شہر کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں

متعلقہ عنوان :