سرکاری ارکان کو تو کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے گئے ،لیکن اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو کسی دشمن ملک کے علاقے سمجھ کر مکمل نظرانداز کر دیا گیا ،مسلم لیگ (ف) کے رکن صوبائی اسمبلی شہریار خان مہر

سندھ میں تعلیمی زبوں حالی پر توجہ دی جائے ، رکن ایم کیوایم عبدالحسیب خان سب کو پتہ ہے کہ کس نے کیا کھایا اور کیا ہضم کیا ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن سعید نظامانی کو جواب کراچی کے لیے کم از کم 30 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے سندھ اسمبلی میں مالی سال 2017-18 کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 8 جون 2017 23:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 جون2017ء) مسلم لیگ (ف) کے رکن صوبائی اسمبلی شہریار خان مہر کا کراچی(آئی این پی) مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن صوبائی اسمبلی شہریار خان مہر نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی حکومت پر اس نیت سے تنقید نہیں کی ہم اپویشن میں ہیں حکومت کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ جمعرات کو سندھ اسمبلی میں مالی سال 2017-18 کے صوبائی بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اپنی بجٹ تقریر یں یہ دعویٰ کیا کہ پی پی حکومت سندھ میں سیاسی مفاہمت پر عمل پیرا ہے، جبکہ حکومت سندھ کا رویہ سب کے سامنے عیاں ہے ، سرکاری ارکان کو تو کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے گئے ،لیکن افسوس کے اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو کسی دشمن ملک کے علاقے سمجھ کر مکمل نظرانداز کر دیا گیا ۔

(جاری ہے)

یہ کیسی سیاسی مفاہمت ہے کہ ہمارے لوگوں پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں بلا امتیاز ترقیاتی کاموں کا دعویٰ اگر درست ہے تو وہ یہ بھی بتا دیتے کہ اپوزیشن کے حلقوں میں کون کون سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں بجلی کا بحران کوئی نیا نہیں ۔ گذشتہ کئی سالوں سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے ۔ پیپلز پارٹٰ گذشتہ تین سال تک وزیر اعظم کے ہاتھوں کھیلتی رہی اور اب جب الیکشن قریب آ رہے ہیں تو لوڈشیڈنگ کا جواز پیش کرکے سندھ میں احتجاجی دھرنے دیئے جا رہے ہیں ۔

یہ سب دکھاوے والی چیزیں ہیں ۔ ایم کیو ایم کے رکن عبدالحسیب نے کہا کہ بجٹ تیار کرنے والی ٹیم اس لحاظ سے مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے مصنوعی اعدادو شمار کے لیے بڑا خوش نما بجٹ تیار کیا ہے ۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کی ترقی و خوش حالی کی بڑی بڑی باتیں بھی کی گئی ہیں لیکن وہ نظر کہیں نہیں آتی ۔ اب عوام یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں ’’ بہت سنی ہیں تمہاری تقریریں ، نہیں بدلی ہماری تقدیریں ‘‘ ۔

عبدالحسیب خان نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ،لیکن ظلم کی نہیں ۔ سندھ حکومت اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ظلم کر رہی ہے ۔ رمضان جیسے مقدس مہینے میں لوگ سحر و افطار کے وقت بھی پانی اور بجلی سے محروم ہیں ۔ ہم صرف کراچی کی بات نہیں کرتے بلکہ سامارو ، سنجھورو ، غوث پور ، دادو اور تھارو شاہ میں ایسے سیکڑوں اسکول ہیں ، جن کی یا تو عمارتیں نہیں یا عمارتیں ہیں کہ تو اتنی خستہ حال ہیں کہ انہیں درسگاہ کہنا بھی مناسب نہیں ہو گا ۔

کچھ اسکولوں میں طلباء کے لیے اساتذہ موجود نہیں ۔ عبدالحسیب خان نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں تعلیمی زبوں حالی پر توجہ دی جائے ۔ اسکولوں میں قرآن کی ناظرہ تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے ۔ حکومت کچرے ، گوبر گیس اور ہائیڈرل پاور سمیت توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ کراچی میں جو آپریشن جاری ہے ، اس کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ ہیں لیکن آج بھی ہمارے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے اور سڑکوں سے ان کی لاشیں ملتی ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سہراب خان سرکی نے حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو آئندہ مالی سال کا کامایب بجٹ پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے گذشتہ 9 سال کے دوران سندھ میں ہر شعبے میں عوام کی نمایاں طریقے سے خدمت کی ہے ۔ حکومت کی توجہ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر بہت زیادہ ہے ۔ پی پی دورے حکومت میں بہت سی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور پاکستان میں پہلی مرتبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ باقاعدہ لاء یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا ۔

سندھ میں صحت کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی حاصل کی گئی ہے اور اب علاج کے لیے پورے پاکستان سے لوگ سول اسپتال کراچی اور جے پی ایم سی آتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ ہر سال بنتا ہے ۔ اس پر تقاریر بھی ہوتی ہیں ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔

جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میں یہ بات اس لیے نہیں کہہ رہا کہ ہم اپوزیشن میں ہیں بلکہ بجٹ کے حوالے سے جو طریقہ کار طے کیا گیا ہے ، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بجٹ کی تیاری کے وقت کسی سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ۔ سید سردار احمد کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں بجٹ اخراجات کی پہلی اور دوسری سہ ماہی سے متعلق جو رپورٹس پیش کی گئیں ، وہ بہت اچھی تھیں لیکن تیسری سہ ماہی کی رپورٹ بہت ہی مختلف نظر آئی ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے بجٹ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اکاؤنٹنٹ بجٹ ہے ۔ پر فارمنس بجٹ نہیں ہے ۔ سید سردار احمد کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زیادہ اخراجات دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ عموماً مالی سال کے آخری دو ماہ کے دوران بجٹ میں مختص کردہ رقوم کو زیادہ بے دریغ طریقے سے خرچ کیا جاتا ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کا یہ آخری سال ہے اور آخری بجٹ ہے ۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئندہ جو بھی حکومت برسراقتدار آئے ، وہ بجٹ بنانے کے طریقہ کار کو تبدیل کرے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بنیادی طور پر دو بڑے ذرائع آمدن ہیں ۔ ایک سندھ کو وفاق سے پیسے ملتے ہیں ، جن کا حصہ 80 فیصد تک ہے جبکہ 18 سے 20فیصد مالی وسائل سندھ خود جنریٹ کرتا ہے ۔ وفاق سے ملنے والی رقم اور اپنے وسائل سے حاصل شدہ رقم کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ، جس کی وجہ سے سندھ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا ۔

اگر ہم اپنے زیادہ فنڈز خود پیدا کرنے کی کوشش کریں اور مختلف ذرائع تلاش کریں تو یہ کام مشکل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ بہت ضروری ہے ۔ اگر حکومت سندھ حقیقت پسندانہ شرح کے مطابق زرعی انکم ٹیکس کی وصولی شروع کرے تو 7 سے 8 ارب روپے اسے اضافی ٹیکس وصول ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میٹرو پولیٹن سٹی ہے ۔ یہاں صرف ایک کمیونٹی کے لوگ نہیں رہتے ۔

دوسری زبان بولنے والے بھی بستے ہیں ۔ اس لیے کراچی کے لیے کم از کم 30 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے اور صوبائی حکومت کراچی کے مختلف اضلاع کے لیے بھی خصوصی پیکیج دینے کا اعلان کرے ۔ سید سردار احمد نے کہا کہ چائنز کمپنی کو کراچی میں کچرا اٹھانے کی ذمہ داری دے دی گئی ہے لیکن وہ بااحسن طریقے اپنا کام انجام نہیں دے رہی ۔ پیپلز پارٹی کے پیر مجیب الحق نے نئے مالی سال کے بجٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبے کے تمام علاقوں کو مساویانہ بنیاد پر فنڈز اور اسکیمیں دی ہیں ، جو ایک خوش آئند اقدام ہے ۔

مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن سعید خان نظامانی نے صوبائی بجٹ کو عوام دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں صرف بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں ۔ عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں ۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر ’’ کیا کیا ، کھایا پیا ہضم کیا ‘‘ کا نعرہ لگایا اور بھیج پگارا کہہ کر اپنی تقریر مکمل کی ، جس پر ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ کس نے کیا کھایا اور کیا ہضم کیا ایم کیو ایم کے صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ سندھ کے موجودہ بجٹ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا حجم 10کھرب 43 ارب سے زائد کا ہے ۔

عوام کی ترقی کے لیے گذشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد زائد ترقیاتی فنڈز مختص کرنے کے خوش نما دعوے بھی کیے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ان نمائشی اقدامات کے باوجود سندھ میں دیہی اور شہری خلیج کم نہ ہو سکی اور اسے بڑھاوا دینے والے اور کوئی نہیں ، سندھ کے اپنے حکمران ہیں ۔ حکومتی اعداد و شمار پر اس لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی جگہ عوام کی حالت نہیں بدلی ہے ۔

بجٹ دھوکہ اور فریب نظر محسوس ہوتا ہے ۔ سندھ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن تعلیمی میدان میں دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب پولیس کی بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے لیے تین تین بار آئی جی کو تبدیل کیا جائے تو ایسے ماحول میں میرٹ کے دعووں پر کون یقین کرے گا ۔ شہری علاقوں میں ترقیاتی منصوبے منتخب عوامی بلدیاتی نمائندوں کے بجائے وزارت بلدیات خود سرانجام دے رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی خاتون رکن شہناز انصاری نے عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومت سندھ کو مبارکباد دی اور کہا کہ وزیر اعلیٰ اپنی بجٹ تقریر میں جو اعدا د و شمار پیش کیے ، وہ مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت کے آئینہ دار ہیں ۔ ایم کیو ایم کے رکن جمال احمد نے کہا کہ بجٹ تقریر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ نے بجٹ میں 49 ہزار سرکاری ملازمتیں میرٹ پر دینے کا اعلان کیا ہے ۔ ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ میرٹ پہلے جیسا نہ ہو ، جس کے تحٹ ماضی میں پولیس کی بھرتیاں ہوئی تھیں ۔ پیپلز پارٹی کی رکن شمیم ممتاز نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے ، جو ہمارے کاموں پر تنقید کر رہے یہں ، انہیں میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میئر کراچی کو کس نے روکا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی طرح روڈوں پر نہ نکلیں ۔

انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی آسمان سیاست کا وہ چاند ہے ، جو ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اور شور مچانے والے شور مچاتے ہی رہ جائیں گے ۔ ایم کیو ایم کے راشد خلجی نے شکوہ کیا کہ پیپلز پارٹی کے گذشتہ چار پانچ سالوں سے جو بجٹ آ رہے ہیں ، اس میں عوامی مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا اور پیپلز پارٹی حیدر آباد کو اپوزیشن کے شہر کے طور پر دیکھتی ہے ۔

حیدر آباد کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور سرکاری اسپتالوں میں موجود مشینری دوسرے شہروں کو منتقل کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حیدر آباد کے لیے 10 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کے رکن عبدالستار راجپر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوامی مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ شروع سے ہمارا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان ہے اور آج بھی ہم اپنے اس منشور پر قائم ہیں ۔

سندھ حکومت زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ نے کہا کہ اپنے مخصوص دلچسپ انداز بیان کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو نہیں بلکہ بجٹ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ پوچھوں گا کہ اے بجٹ تم نے تھر کے بچوں کا کیوں خیال نہیں رکھا ۔ تمہاری وجہ سے اس دھرتی کے باسیوں کو کوئی ریلیف کیوں نہیں ملا اور کیوں تم سندھ کے عوام کو اس طرح بہلاتے پھسلاتے رہو گے ۔

دیوان چند چاولہ کا کہنا تھا کہ سکھر کے قریب ہندؤوں کے مقدس تاخیری مندر سادھو بیلا کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب 36 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کیے گئے تھے لیکن وہاں صرف تین کروڑ 42 لاکھ روپے خرچ ہوئے ۔ باقی تمام رقم کرپشن کی نذر ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ ایوان میں بجٹ پڑھ کر آؤ ۔ ایسا بجٹ پڑھنے سے کیا فائدہ ، جس سے ہمیں دودھ کا ایک گلاس بھی نہ مل سکے ۔

اسپیکر نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی تقریر مختصر رکھیں ۔ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے ڈسٹرپ کریں گے، کیونکہ میں حکمرانوں کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کر رہا ہوں ۔ دیوان چند چاولہ کی جذباتی تقریر اور اپنی نشست پر نہ بیٹھنے کے باعث ان کا مائیک بند کر دیا گیا ، جس پر اقلیتی رکن اور اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی اپنی نشستوں سے احتجاجاً کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ایوان میں شور شرابہ شروع کر دیا ،لیکن کچھ دیر بعد اپوزیشن ارکان خاموش ہو کر اپنی نشستوں پر دوبارہ بیٹھ گئے ۔

پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر مہیش ملانی نے کہا کہ سندھ میں نئی ملازمتوں کے ذریعہ بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ پیپلز پارٹی کے ساجد جوکھیو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوامی مفاد کو مقدم رکھا ہے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو بھی اسی پہلو کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے ۔