زراعت و صنعت میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، رینٹ انکم فروغ پا رہی ہے، میثاق معیشت ممکن نہیں ،ْاپوزیشن اراکین

ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ہے ،ْٹیکسوں کا نظام درست نہیں ہے ،ْسرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں اس پر توجہ دینا ہوگی ،ْ 18 ویں ترمیم پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے ،ْسینیٹر تاج حیدر ،ْ شبلی فراز ،ْ سسی پلیجو ،ْ و دیگر کا اظہار خیال میثاق جمہوریت کے دوران پیپلز پارٹی این آر او کر رہی تھی ،ْڈائیلاگ مارنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، مشاہد اللہ خان پیپلز پارٹی میں کرپشن کرنے والوں کی عزت ہے ،ْ آج باتیں کر رہے ہیں، پانچ سال ان کی حکومت رہی تو کیا کرتے رہے ،ْلاڑکانہ کے نام پر 91 ارب کھا گئے ،ْووٹ لینے ہیں تو کچھ کر کے دکھائیں ،ْ اس طرح ووٹ نہیں ملیں گے ،ْ سینٹ میں اظہار خیال

پیر 5 جون 2017 17:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 جون2017ء) اپوزیشن اراکین نے مالی آئندہ 2017-18کے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ زراعت و صنعت میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، رینٹ انکم فروغ پا رہی ہے، میثاق معیشت ممکن نہیں ،ْٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ہے ،ْٹیکسوں کا نظام درست نہیں ہے ،ْسرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں اس پر توجہ دینا ہوگی ،ْ 18 ویں ترمیم پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ حکومتی رکن سینیٹر مشاہد اللہ خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کو ان کی بجٹ تقریر پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاہے کہ میثاق جمہوریت کے دوران پیپلز پارٹی این آر او کر رہی تھی ،ْڈائیلاگ مارنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، پیپلز پارٹی میں کرپشن کرنے والوں کی عزت ہے ،ْ آج باتیں کر رہے ہیں، پانچ سال ان کی حکومت رہی تو کیا کرتے رہے ،ْلاڑکانہ کے نام پر 91 ارب کھا گئے ،ْووٹ لینے ہیں تو کچھ کر کے دکھائیں ،ْ اس طرح ووٹ نہیں ملیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سسی پلیجو نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ہے، ہم سی پیک کی حمایت کرتے ہیں، یہ گیم چینجر ہو سکتا ہے لیکن صوبوں کی بات سنی جائے۔ سی پیک میں ہمارے منصوبے بھی شروع کئے جائیں۔ ٹھٹھہ میں 18، 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے، پی ایس ڈی پی میں صرف 8 فیصد سکیمیں سندھ کی شامل کی گئی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن سینیٹ سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے، کیونکہ یہ پسماندہ صوبہ ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو دھرنوں کا سامنا رہا، لیکن اس نے ملک میں امن قائم کیا، دہشت گردی ختم کی، آج بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ 2018ء میں ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی، بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ملک میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹا، چینی، دالوں سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کی جائیں۔ بارشوں کا جو پانی ضائع ہو رہا ہے اس کو ذخیرہ کیا جائے۔ بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے، صحت و تعلیم و صاف پانی کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ ہماری تقریروں سے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بجٹ میں سڑکیں بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

بلوچستان کو 500 میگاواٹ کے گرڈ اسٹیشن کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کا دو تہائی حصہ نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہے، نہ اس کے لئے رقم مختص کی گئی ہے۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں کو سی پیک کے مغربی روٹ سے منسلک کیا جائے ورنہ سی پیک کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، اس کو روکنے کے لئے سمال ڈیمز بنائے جائیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا سیکریٹریٹ نہیں بن سکا۔ انہوں نے کہاکہ کاروبار کرنے پر لاگت بہت زیادہ ہے، ٹیکسوں کا نظام درست نہیں ہے، سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ دو ہفتے دھماکہ نہ ہو تو لوگ نیشنل ایکشن پلان کو بھول جاتے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ سی پیک کے مغربی روٹ کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا، کئی وزارتوں کے بجٹ میں بلوچستان کا تذکرہ تک نہیں ہے، ہمارے ساتھ تکنیکی ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔

جون سے دو ماہ پہلے ہمیں پیسے دیتے ہیں پھر وہ خرچ نہیں ہوتے تو کہتے ہیں لیپس ہو گئے۔ اٹھارہویں ترمیم پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل نہ کیا جائے۔ بھارت بھی دشمن ملک ہے لیکن ایک دن کے لئے بھی واہگہ بارڈر بند نہیں کیا گیا لیکن طورخم اور چمن بارڈر آئے روز بند ہوتے ہیں، پارلیمان کی بالادستی ہے نہ خارجہ پالیسی پارلیمان بناتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ سروسز کے سیکٹر میں ہوا، بجٹ اجلاس دو ماہ تک ہونا چاہئے تاکہ اس پر تفصیل سے بات ہو سکے۔ دولت سٹاک ایکسچینج اور ریئل اسٹیٹ میں لگائی جا رہی ہے، زراعت و صنعت میں نہیں لگ رہی۔ لوگوں کی آمدنی کا بڑا حصہ کرایوں میں جا رہا ہے، رینٹ انکم فروغ پائے گی تو سرمایہ ان شعبوں میں نہیں جائے گا جس سے ملک کو فائدہ ہو۔

یہ وہ دولت ہے جو بغیر محنت کے پیدا ہوتی ہے۔ زیادہ ٹیکس حلال کمائی پسینے بہانے والوں سے لیا جاتا ہے۔ غریب امیر میں فرق بڑھ رہا ہے۔ وسائل کا رخ اشرافیہ کی طرف ہے۔ ترقی یافتہ علاقوں کی جانب مائیگریشن بڑھے گی، صوبوں کے مابین بھی مائیگریشن بڑھے گی۔ تمام فنڈنگ ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہے۔ صوبوں میں ٹیکسوں کی وصولیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹیکسوں کی شرح بڑھانا مسئلے کا حل نہیں۔ رینٹ انکم جو پلاٹوں سے حاصل ہوتی ہے اس پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ 6 لاکھ کا پلاٹ آج 85 لاکھ کا ہو گیا ہے، اس پر بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔ ایس آر اوز کے ذریعے ٹیکسوں میں چھوٹ کو ختم کیا جائے۔ آئین کے پارٹ ٹو میں ترمیم کر کے رہائشی پلاٹ پر خاندان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت ممکن نہیں کیونکہ ہم محنت کش کے ساتھ ہیں، یہ سرمایہ دار کے ساتھ، ہمارے اور ان کے وژن میں فرق ہے، ہم پہلے میثاق جمہوریت کا حال دیکھ چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے بزرگ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے کئی ممالک کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔ حالیہ سال کی کارکردگی متاثر کن ہے، زرعی شعبے کی ترقی میں حوصلہ افزاء اضافہ ہوا، روزگار کے نئے مواقع میسر آئے ہیں۔ فی کس آمدنی بھی 22 فیصد بڑھی ہے۔ معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر کے قریب ہیں، حکومت اصلاحات جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔

چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے سینیٹر ایم حمزہ کی تقریر کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماشاء الله 16 منٹ 30 سیکنڈ اظہار خیال کیا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کی تقریر کے بعد بجٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد الله خان نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے دوران ہی این آر او بھی ہو رہا ہے، یہ تاریخ ہے جو بعض اوقات تکلیف دہ بھی ہوتی ہے۔

ڈائیلاگ بازی سے مسئلے حل نہیں ہوتے، حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیں، ہمیں غلط بیانی نہیں کرنی چاہئے، اتفاق فائونڈری کب کی بند ہو چکی، سریے کے کام سے شریف فیملی کا کوئی تعلق نہیں، سی پیک سے معاشی سرگرمیاں شروع ہیں، لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوا ہے، یہ سلسلہ مزید بڑھے گا۔ ماضی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ کس نے ملک میں مافیاز بنائے، کرپشن کی، ایک ایک شخض نے اربوں بنائے، ایک پارٹی اس کو تحفظ دیتی ہے جو کرپشن کرتا ہے وہ پارٹی قیادت کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے، کم کرپشن کرنے والے کی کم عزت ہے، زیادہ کرپشن کرنے والے کی زیادہ عزت ہے۔

کراچی میں پانچ سال کیا کرتے رہے، جب حکومت تھی، بھتے لینے کے لئے کراچی کو دہشت گردوں کے ہاتھوں میں دے دیا، چیف منسٹر عزیز بلوچ سے سرعام جا کر ملتا تھا، حلف لیتا تھا، روزانہ 100 لوگ مرتے تھے، کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی، آج باتیں کر رہے ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کیا حالت تھی۔ سٹاک ایکسچینج کی کیا حالت تھی، آج کیا ہے، آج تقریریں کر رہے ہیں، عمل تقریروں کے خلاف ہوتا ہے، دوسروں کے خلاف جھوٹ بول کر خوش ہوتے ہیں، اپنے دور میں انہوں نے کتنی بجلی بنائی، ان کے ڈیڑھ سو لوگوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا رکھی ہے۔

لاڑکانہ کے نام پر 91 ارب روپے کھا گئے، لعل شہباز قلندر کو بھی نہیں چھوڑا۔ غریبوں کے ٹکڑے ہوئے تو ان کے ٹکڑے نالوں میں جا کر پھینکے، کراچی میں ان سے کچرا صاف نہیں ہوتا، ہمیں نصیحتیں کرتے ہیں۔ پنجاب نے 3600 میگاواٹ بجلی بنائی ہے، خیبر پختونخوا اور سندھ 2 میگاواٹ بجلی بھی نہیں بنا سکے۔ یہاں تقریریں کرتے تھے کہ ہم بجلی بنائیں گے۔ عمران خان نے چیئر لفٹ کی تزئین و آرائش اور واٹر پمپ ایک منصوبے کا آغاز کیا۔

ووٹ لینا ہے تو کچھ کر کے دکھائیں۔ ہم ان کی مدد کریں گے۔ انہوں نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے، کام بھی نہیں کرتے، کرپشن بھی کرتے ہیں۔ کراچی کو کچرا کنڈی بنا دیا، جیکب آباد شکارپور میں کوئی سڑک ایسی نہیں جس پر پانی کھڑا نہیں ہوتا۔ ہمارا ان کا کیا مقابلہ، بجٹ میں رواں سال بہت کم ٹیکس لگے ہیں، تمام شعبہ ہائے زندگی بشمول زراعت میں ریلیف دیا گیا ہے۔

میثاق جمہوریت کا بھی ہمیں فائدہ ہوا ہے، جتنا ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہوا۔ میثاق معیشت بھی ہونا چاہئے، اس کے لئے کچھ عرصہ کے لئے کرپشن چھوڑنا پڑے گی، چھوڑ دیں اور اپنے منشور پر عمل درآمد کرلیں، اپنی قیادت سے جا کر کہیں کافی ہو گیا اب بس کر دیں تاکہ جو پیسہ کرپشن کی نذر ہو رہا ہے وہ غریبوں اور مزدوروں پر خرچ ہو، خالی باتوں سے کچھ نہیں ہوگا۔