سپریم کورٹ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان پراعتراضات کے حوالے سے کیس میں جے آئی ٹی کوقانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت

پیر 29 مئی 2017 22:48

سپریم کورٹ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان پراعتراضات کے حوالے سے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 مئی2017ء) سپریم کورٹ نے وزیراعظم محمد نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جی آئی ٹی) کے دو ارکان پراعتراضات کے حوالے سے کیس میں جے آئی ٹی کوقانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ جے آئی ٹی کاکوئی رکن تبدیل نہیں کیاجائے گا۔ پیرکوجسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجازالحسن پرمستمل تین رکنی خصوصی عملدرآمد بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

وزیراعظم محمد نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے اپنی درخواست میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول اور سٹیٹ بینک کے عامر عزیز پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ حسین نواز نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ بلال رسول میاں اظہرکابھتیجااور پی ٹی آئی کاسپورٹرہے اور ان کابیٹااوراہلیہ بھی پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔

(جاری ہے)

حسین نواز نے اپنی درخواست میں عامر عزیز پر اعتراض کیا ہے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو میں تعیناتی کے دوران حدیبہ پیپر ملز کی تحقیقات کی تھیں۔

وکیل خواجہ حارث نے بتایاکہ جے آئی ٹی عدالت کے حکم پرقائم ہوئی ہے لیکن ٹیم کے ارکان نے پیش ہونے والے افراد سے بدسلوکی کی ہے اورانہیں ڈرایادھمکایا ہے۔جسٹس اعجازافضل نے ہدایت کی کہ ہرفرد کے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آنا چاہیئے۔سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے جے آئی ٹی کے دوارکان کوہٹانے کی استدعا پر کہا کہ دونوں وائٹ کالر کرائم کے کیسزکے ماہرین ہیں ۔

ٹیم کے ارکان تجربہ کار افسران ہیں جن کاچنائو خود سپریم کورٹ نے کیاہے، اگرتحقیقات میں کہیں جانبداری نظر آئی تو ریکارڈ سے پتہ چل جائے گا۔ اس موقع پر جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ بعض افراد ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے اورجے آئی ٹی میں پیش نہیںہورہے، ہم نے قطری شہزادے جاسم، نیشنل بینک کے صدرسعید احمد اورکاشف قاضی کوسمن جاری کئے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے جس پرجسٹس اعجازافضل نے ان سے کہاکہ جوافراد سمن کے باوجود پیش نہیں ہوتے پہلے ان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں پھر بھی پیش نہ ہوں تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیاکہ سعید احمد کیوں پیش نہیں ہورہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ان کوپیش ہوناچاہئے لیکن پتہ نہیں کہ و ہ کیوں پیش نہیں ہوسکے جس پرعدالت نے ان کوہدایت کی کہ نیشنل بینک کے صدرکوجے آئی ٹی میں پیش کرانے کویقینی بنایا جائے ورنہ قانون اپناراستہ خود بنائے گا۔ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ وہ کراچی میں ہیں لیکن جے آئی ٹی میں پیش ہوں گے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایاکہ کاشف قاضی اورقطری شہزادے نے پاکستان آنے کے حوالے سے سیکورٹی کے تخفظات کااظہارکیا ہے جس پرعدالت نے ہدایت کی کہ جس کوبھی سیکورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں ان کوسیکورٹی فراہم کی جائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگرکوئی پیش نہیں ہوتا تواسے نتائج بھگتناہوں گے۔ جسٹس اعجازافضل نے ہدایت کی کہ ہرفرد کے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آنا چاہیئے۔

وزیراعظم محمد نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز کیوکیل خواجہ حارث نے بتایاکہ جے آئی ٹی عدالت کے حکم پرقائم ہوئی ہے لیکن ٹیم کے ارکان نے پیش ہونے والے افراد سے بدسلوکی کی ہے اورانہیں ڈرایادھمکایا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے ہدایت کی کہ ہرفرد کے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آنا چاہیئے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے فاضل وکیل سے کہاکہ آپ کی درخواست سے لگتا نہیں کہ آپ کے موکلان کوہراساں کیا گیاہو یاان کی تذلیل کی گئی ہو۔

خواجہ حارث نے بتایاکہ ان کے موکل طارق شفیع کوکئی گھنٹوں تک بلاوجہ روکے رکھا گیا، ٹیم کاطریقہ تفتیش ٹھیک نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ قانون کی نظرمیں سب برابر ہیں۔ خواجہ حارث نے استدعاکی کہ متعلقہ افسران کوہٹایا جائے یاتبدیل کیا جائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جے آئی ٹی کوساٹھ روزمیں تفتیش مکمل کرنے کاکہا گیا ہے اسلئے وہ ہفتہ اوراتوارکے روزبھی کام کرتی ہے۔

خواجہ حارث نے بتایاکہ میرے موکل کوایک روزقبل سعودی عرب میں سمن موصول ہوا، ان کویہ بھی کہا گیاکہ وہ بیان حلفی واپس لیں ورنہ جیل بھیجوادیا جائے گا۔ شیخ عظمت نے کہاکہ ضروری نہیں کہ الزامات درست ہوں، اعجازشفیع کوکسی ٹی پارٹی میں نہیں بلایا گیا تھا آپ نے جن دوافراد کوٹارگٹ کیاہے وہ اپنے کام کے ماہرہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی نے ان کے موکلان کی ویڈیواورآڈیو ریکارڈنگ بھی کی ہے اوراگر ہم غلط بیانی کررہے ہیں تو اسی کودیکھ کراندازہ لگایا جاسکتاہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جے آئی ٹی کامینڈیٹ مقدمہ کے حوالے سے شواہد اورریکارڈ اکھٹاکرناہے جوساٹھ روز میں مکمل کیاجائے گا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی کومیرٹ پرتفتیش کرنے کاحکم دیا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ہم قانون کے مطابق آگے بڑھتے رہیں گے، ہم جے آئی ٹی کوبھی ہدایت کرتے ہیں کہ قانون کے مطابق تفتیش کی جائے اورسب کااحترام کیاجائے، ہم ہدایت کرتے ہیں کہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کویقینی بنایاجائے لیکن تحقیقات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ چھ افراد پرمشتمل جے آئی ٹی ہے جوسارے مل کر کام کرتے ہیں،عدالت تحقیقات پرنظررکھے ہوئے ہے، درخواست میں اٹھائے گئے نکات نوٹ کرلئے گئے ہیں، کہیں خرابی نظرآجائے تو عدالت اس کانوٹس لے گی، جانبداری ثابت کرنے کیلئے بھی ٹھوس شواہد ضروری ہوتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس نمٹادیا۔

متعلقہ عنوان :