سپریم کورٹ نے حسین نواز کے جے آئی ٹی کے 2 ارکان پر اعتراضات مسترد کر دیئے ،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت

قانون کے دائرے میں ہر شخص کو عزت و تکریم دی جائے، وزیراعظم ہو یا عام شہری کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں،جے آئی ٹی کے کسی بھی رکن کو تبدیل نہیں کیا جائیگا ، اگر کوئی تعصب ہوگا تو ریکارڈ سے پتہ چل جائیگا ، حسین نواز کے اعتراضات کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کے ریمارکس جے آئی ٹی میں وزیراعظم کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں ،کیا وزیراعظم اپنی تحقیقات کیلئے ٹیم کا خود انتخاب کرینگے تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں ، چاچے مامے کو دیکھنے لگے تو کوئی کسی نہ کسی کا رشتہ دار ہے ، قانون کی نظر میں ہر شخص برابر ہے ، کیا تفتیش ہر شخص کیلئے مختلف ہونی چاہیے ، چپڑاسی ہویا وزیراعظم سب کے ساتھ عزت سے پیش آئیں،، طارق شفیع کو کسی دعوت پر نہیں تفتیش کے لیے بلایا گیا تھا، ان دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ، جو وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ماہر ہیں، معاملہ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا ،جسٹس شیخ عظمت سعید تحقیقاتی افسر کو بھی قانون پر عمل کرنا ہوگا ، جے آئی ٹی کے افسران خدا یا فرعون نہیں ،حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل

پیر 29 مئی 2017 19:50

سپریم کورٹ نے حسین نواز کے جے آئی ٹی کے 2 ارکان پر اعتراضات مسترد کر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 مئی2017ء) سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ، سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے کسی بھی رکن کو تبدیل نہیں کیا جائے گا ، اگر کوئی تعصب ہوگا تو ریکارڈ سے پتہ چل جائے گا ، جانبداری ثابت ہوئی تو وہ رکن جے آئی ٹی میں نہیں ہوگا ،جے آئی ٹی اپنا کام جاری رکھے، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شخص کو عزت و تکریم دی جائے، وزیراعظم ہو یا عام شہری کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی میں وزیراعظم کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں ،کیا وزیراعظم اپنی تحقیقات کے لئے ٹیم کا خود انتخاب کریں گے تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں ، چاچے مامے کو دیکھنے لگے تو کوئی کسی نہ کسی کا رشتہ دار ہے ، قانون کی نظر میں ہر شخص برابر ہے ، کیا تفتیش ہر شخص کیلئے مختلف ہونی چاہیے ، معاملہ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا ، چپڑاسی ہویا وزیراعظم سب کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، طارق شفیع کو کسی دعوت پر نہیں تفتیش کے لیے بلایا گیا تھا، ان دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے جو وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ماہر ہیں ۔

(جاری ہے)

پیر کو سپریم کورٹ میں حسین نواز کے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر اعتراض سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جے آئی ٹی پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا۔حسین نواز کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے، کمرہ عدالت میں دانیال عزیز، طلال چوہدری، نعیم الحق اور دیگر سیاسی رہنما موجود تھے۔

عدالت نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے بینچ نے اٹارنی جنرل کی ضمانت پر سعید احمد کو (آج ) منگل تک پیش ہونے کی مہلت دے دی، عدالت نے حکم دیا کہ سعید احمد منگل کوپیش ہوں۔سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے کس کو بلایا تھا جو نہیں آیا ۔ سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیاء نے کہا کہ ہم نے نیشنل بینک کے سعید احمد کو بلایا تھا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کوئی مداخلت کرے گا تو نوٹس لیں گے ، واجد ضیا ء نے کہا کہ پاکستان سے باہر موجود گواہوں کو بلانا چاہتے ہیں ، گواہوں کو بلانے سے متعلق تعاون نہیں کیا جا رہا ، حسین نواز گزشتہ روز پیش ہوگئے ، حماد بن جاسم کو بھی طلب کیا لیکن وہ نہیں آئے ، کاشف مسعود قاضی کو بھی طلب کیا پیش نہیں ہوئے ، کاشف مسعود قاضی کو سیکیورٹی خدشات ہیں ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان افراد کو سمن کس طرح بھیجا گیا تھا واجد ضیاء نے کہا کہ ان افراد کو خصوصی طریقے سے سمن بھیجا گیا تھا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کسی کے سیکیورٹی مسائل ہیں تو حل کئے جائیں ۔عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کے بلانے پر جو پیش نہیں ہوتا اس کے قابل ضمانت جبکہ اس کے بعد ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں گے ، حمد بن جاسم نہیں آتے تو قطری خط ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے ۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ طارق شفیع کو جے آئی ٹی نے 13گھنٹے تک بٹھائے رکھا ، طارق شفیع کو بیان حلفی واپس لینے کیلئے حراساں کیا گیا ، تحقیقات اور ملزموں کے ساتھ سلوک میں توازن ہونا چاہیے ، خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے بھی قراردیا کہ کسی کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہراساں کیا جانا اور غیر جانبداری دو الگ الگ چیزیں ہیں ، اللہ کا فرمان ہے ہر انسان کے ساتھ اچھا سلوک ہونا چاہیے ، آپ نے کمیٹی پر نازیبا سلوک کا نہی تعصب کا الزام لگایا ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ قانون کی نظر میں ہر شخص برابر ہے ، کیا تفتیش ہر شخص کیلئے مختلف ہونی چاہیے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے سات روز دیے ہیں ، جے آئی ٹی کام مکمل کرنے کیلئے دن رات کام کر رہی ہے ۔ جے آئی ٹی نے ہفتہ اور اتوار کو بھی کام کیا ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں ایک دن پہلے نوٹس دیا گیا ، حسین نواز پھر بھی پیش ہوئے ۔

طارق شفیع کو دوران تفتیش جے آئی ٹی نے جھوٹا کہا۔ طارق شفیع کو بیان حلفی واپس نہ لینے پر دھمکیاں دی گئیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ جانتے ہیں جے آئی ٹی ارکان کیا تحقیقات کر رہے ہیں ۔خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی تحقیقات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے ، قانون کی نظر میں ویڈیو ریکارڈ قابل قبول ثبوت نہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ معاملہ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا س، چپڑاسی ہویا وزیراعظم سب کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم میں تبدیلی کی عدالتی مثالیں موجود ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ تحقیقاتی افسران کی بدنیتی ثابت کریں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بلال رسول کی تحریک انصاف سے قریبی وابستگی ہے ، بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی متحرک سپورٹر ہیں ، ارکان نے غیر جانبداری کا مظاہر ہ نہ کیا تو یہ ایک سنجیدہ ایشو ہے ۔

ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو نا اہلی یا سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا وزیراعظم اپنی تحقیقات کیلئے ٹیم کا انتخاب خود کریں گے جے آئی ٹی میں وزیراعظم کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں ، تمام ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کسی بھی رکن کو تبدیل نہیں کیا جائے گا ، اگر کوئی تعصب ہوگا تو ریکارڈ سے پتہ چل جائے گا ، جانبداری ثابت ہوئی تو وہ رکن جے آئی ٹی میں نہیں ہوگا ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چاچے مامے کو دیکھنے کیلئے تو کوئی نہ کسی کا رشتہ دار ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے آپ کے اعتراضات نوٹ کر لیے ہیں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تحقیقاتی افسر کو بھی قانون پر عمل کرنا ہوگا ۔ جے آئی ٹی کے افسران خدا یا فرعون نہیں ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ تفتیشی افسر فرعون ہیں اور نہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کو جے آئی ٹی نے کوئی سوالنامہ نہیں دیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا حسین نواز کو نہیں پتہ کونسی دستاویز پیش کرنی ہیں اگر ایسا ہی ہے تو پھر حسین نواز کیلئے گڈ لک، تحقیقات ہوا میں نہیں ہورہی ،حسین نواز کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس کا دفاع کیا ہے ، تمام دستاویزحسین نواز کے پاس ہیں ، حسین نوازدستاویز جے آئی ٹی کو دیں اور گھر جائیں ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عامر عزیز حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کرتے رہے وہ اپنا موقف واضح کر چکے ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عامر عزیز سٹیٹ بینک کے ملازم ہیں ہم نے حساس ادارون سے ارکان کی تصدیق کروائی ، اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے ، عامر عزیز پر تو اعتراض کسی اور کو ہونا چاہیے تھا ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جانبداری سامنے آئی تو نوٹس لیں گے ۔دونوں ممبران غیر جانبداری سے کام کریں گے ۔عدالت نے جے آئی ٹی کو قانون کے مطابق کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والوں کے ساتھ قابل عزت سلوک کیا جائے ۔(ن م)