سینٹ ،ْ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ،ْ اپوزیشن ارکان

سی پیک نہ بنتا تو بلوچستان میں شاید اتنی ترقی نہ ہوتی ،ْبجٹ عوام دوست ہے ،ْ حکومتی اراکین ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے ایف بی آر میں اصلاحات لانا ہوںگی ،ْ ملک کو غربت سے نکالنے اور ترقی دینے کے لئے منصوبہ بندی کمیشن کو کردار ادا کرنا چاہیے ،ْمعیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ،ْ سلیم مانڈوی والا ،ْ اعظم سواتی ،ْ سجاد طوری کا بجٹ پر اظہار خیال

پیر 29 مئی 2017 16:48

سینٹ ،ْ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2017ء) سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں‘ تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافہ ہونا چاہیے ،ْٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے ایف بی آر میں اصلاحات لانا ہوںگی ،ْ ملک کو غربت سے نکالنے اور ترقی دینے کے لئے منصوبہ بندی کمیشن کو کردار ادا کرنا چاہیے ،ْمعیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

پیر کوسینٹ میں مالی سال 2017-18کے بجٹ پر بحث شروع ہوگئی ہے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد دیتے ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ بجٹ کے اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں ،ْبجٹ پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے کہ اس میں ان کے لئے کن سہولیات کا اعلان کیا جاتا ہے ،ْپنشن اور تنخواہ دار طبقے کے ساتھ اس بجٹ میں زیادتی کی گئی ہے اور ہائوس رینٹ اور میڈیکل الائونس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ موجودہ مہنگائی کے لحاظ سے ناکافی ہے ،ْصحت کیلئے بھی بجٹ میں کچھ نہیں ہے ،ْ وزیراعظم ہیلتھ کارڈ سکیم کا آغاز تو کردیا گیا ہے تاہم اس سکیم کے تحت کارڈ حاصل کرنے والوں کو ہیپا ٹائٹس جیسے بڑے مرض کے علاج کی سہولیات حاصل نہیں ،ْ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو شیڈو بجٹ دیا ہے اس میں تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی تھی۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے ہی وہ دو وکٹ کی روٹی سکون سے کھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبے کی یہ حالت ہے کہ اس وقت بھی دو کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے‘ بجٹ میں عوام کے لئے کوئی خاص ریلیف نہیں دیا گیا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایک بہترین اور مثبت بجٹ پیش کیا ہے۔

بلوچستان کبھی محرومیوں کا شکار تھا آج وہاں حالات بہت اچھے ہیں۔ سی پیک نہ بنتا تو بلوچستان میں شاید اتنی ترقی نہ ہوتی۔ تمام صوبوں کو یکساں حقوق دینا وزیراعظم نواز شریف کا وژن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار بجٹ کی وجہ سے ہی پاکستان معاشی لحاظ سے ایک مضبوط ملک بن چکا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح اس وقت پچھلے دس سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ سازی کے عمل میں ارکان پارلیمنٹ کی شمولیت کے معاملے پر پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں غور کیا جانا چاہیے۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ملک کو غربت سے نکالنے اور ترقی دینے کے لئے منصوبہ بندی کمیشن کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ معیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ 12 جون کو ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں۔ میثاق معیشت کرنے کو تیار ہیں۔ جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی وصولی کی شرح کی حد 80 فیصد ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز اور ریلوے جیسے اداروں پر ہم سات ملین روپے خرچ کر رہے ہیں۔

ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہیے۔ نادرا کی مدد لئے بغیر ٹیکس کا دائرہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ سینیٹر نعمان وزیر نے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بجٹ کی تیاری سے سماجی شعبے کے حالات تبدیل نہیں ہونگے۔ اصل مسئلہ غربت میں نکالنے کے لئے گروتھ کی حکمت عملی ہے۔ اس حوالے سے منصوب بندی ترقی و اصلاحات کو ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہئے یہاں ایف بی آر اور وزارت خزانہ حاوی ہوتی ہے فلاحی ریاست بنانے کے لئے بنانے کے لئے ضروری ہے معاشی ترقی میں وزارت منصوبہ ب ندی کو کلیدی کردار دیا جائے لاہور میں ٹیکس والے دس کروڑ روپے کی رشوت لیتے ہیں جو میثاق معیشت کے لئے تیار ہیں۔

میثاق معیشت کے لئے چیئرمین سینٹ بارہ جون کو مشاورتی اجلاس کی تاریخ دے دیں آئیں میثاق معیشت بنا لیتے ہیں قرضے لینے کے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔ خیبر پختونخواہ میں پچاس پیسے سے فی یونٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔سجاد حسین طوری نے کہا کہ فاٹا کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔

این ایف سی سے ابھی تک ہمیں تین فیصد حصہ نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں پسماندگی بڑھ رہی ہے اس کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ پی ایس ڈی پی کی تمام رقم سستی بجلی پیدا کرنے پر خرچ کردینی چاہیے۔ محصولات کی وصولی کے لئے اضافی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر میں بدعنوانی کی روک تھام کرنا ہوگی اور ایف بی آر میں اصلاحات لاکر ٹیکس وصولی بڑھانا ہوگی۔