حسین نواز کی درخواست مسترد ،ْ سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی کو کام جار ی رکھنے کا حکم

ْکسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا ،ْجے آئی ٹی قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے ،ْ پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے ،ْعدالت عظمیٰ گور نر سٹیٹ بینک پیش کیوں نہیں ہوئے عدالت کا برہمی کا اظہار جو پیش نہ ہو پہلے قابل ضمانت اور پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں ،ْعدالت عظمیٰ اگر حماد بن جاسم پیش نہ ہوئے تو ان کے خط کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی ،ْ ججز کے ریمارکس تحقیقات اور گواہوں کیساتھ رویے میں توازن ہونا چاہیے ،ْ طارق شفیع کو 13 گھنٹے بٹھایا گیا ،ْاپنا بیان حلفی واپس لینے کو کہا گیا ،ْوکیل حسین نواز تفتیش کے دوران ایک لمبا چوڑا شخص طارق شفیع پر چلاتا رہا ،ْجے آئی ٹی کے ممبران غیر جانبدار ہو کر کام کریں ،ْ حارث خواجہ

پیر 29 مئی 2017 16:48

حسین نواز کی درخواست مسترد ،ْ سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی کو کام جار ی رکھنے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی پر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا ،ْجے آئی ٹی قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے ،ْ پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے۔

پیر کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پر اعتراض کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا سے استفسار کیا کہ آپ نے کس کس کو طلب کیا تھا جو نہیں آئے جس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے سعید احمد کو بلایا وہ نہیں آئے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ یہ سعید احمد کیا نیشنل بینک والے ہی ہیں ۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سعید احمد کے جواب کی زبان ملاحظہ کریں ،ْوہ کہتے ہیں اگر ضرورت پڑی تو پیش ہوں گا ،ْوقت محدود ہے جو وقت ضائع کرے اس پر احکامات جاری کئے جائیں ،ْجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ صدر نیشنل بینک (آج) منگل کو ہر صورت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کیوں نہیں آئے انہوںنے کہاکہ کسی کو سمن کریں تو وہ سوال جواب شروع کر دیتا ہے ،ْ جو پیش نہ ہو پہلی صورت میں اس کے قابل ضمانت اور پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کو بلایا تھا جو نہیں آیا جس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے نوٹس کے باوجود حماد بن جاسم اور کاشف محمود قاضی نہیں آئے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کاشف مسعود قاضی کیوں حاضر نہیں ہوتے عدالت ان کے خلاف آرڈر جاری کرسکتی ہے۔ واجد ضیاء نے کہاکہ کاشف مسعود کو سیکیورٹی خدشات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے کہاکہ قطری شہزادے حماد بن جاسم کو بھی طلب کیا ہے وہ بھی پیش نہیں ہوئے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر وہ پیش ہوتے ہیں تو ٹھیک ہے ہم ان کے خط کو ردی کی نذر کردیں گے۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے ایک تحقیقاتی ٹیم قائم کی ہے ،ْہم تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں،حسین نواز سعودی عرب سے آئے اور انھیں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تو وہ فوراً پیش بھی ہوگئے۔

تحقیقات اور گواہوں کے ساتھ رویے میں توازن ہونا چاہیے ،ْ طارق شفیع کو 13 گھنٹے بٹھایا گیا، انہیں اپنا بیان حلفی واپس لینے کو کہا گیا۔ تفتیش کے دوران ایک لمبا چوڑا شخص طارق شفیع پر چلاتا رہا۔ جے آئی ٹی کے ممبران غیر جانبدار ہو کر کام کریں ،ْسپریم کورٹ نے بہت سے فیصلوں میں بدنیتی ثابت ہونے پر افسران تبدیل کئے جس پر جسٹس اعجاز افضل کا استفسار کیا کہ بتائیں بدنیتی کہاں شامل ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بلا ل رسول میاں اظہر کے بھانجے ہیں ،ْان کی اہلیہ 2013میں مسلم لیگ (ق) کی مخصوص نشست پر امیدوار رہیں ،ْبلال رسول کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حق میں پوسٹ شیئر کیںجس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ بلال رسول سرکاری ملازم ہیں ،ْہمیں ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی کسی کوہراساں کرے ،ْہم چاہتے ہیں کہ جو پیش ہو اس کی عزت کی جائے ،ْہم نے جے آئی ٹی کو 60 دن میں کام مکمل کرنے کا کہا ہے، ٹیم دن رات کام کر رہی ہے اور کوئی چھٹی بھی نہیں کر رہی اور آپ کمیٹی ارکان پر اعتراض کر رہے ہیں ،ْمذکورہ شخص کو تحقیقات کیلئے بلایا گیا تھا چائے پارٹی کیلئے نہیں۔

خواجہ حارث نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پڑھ کرسنایا تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بیان حلفی درست ہے یا نہیں ،ْآپ ٹیم کے ایک ممبر کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنا کام کرنا جانتے ہیں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں کسی کے خلاف بات کی جائے تو اسے جانبدار کہا جاتا ہے ،ْ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا، اگر ایسا کیا تو پھر تحقیقات کے لیے آسمان سے فرشتے بلانے پڑیں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کیوں کی جا رہی ہے ،ْقانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ویڈیو آڈیو ریکارڈنگ کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ویڈیواور آڈیو ریکارڈنگ متعارف کرائی گئی تھی جسے عدالت نے مستردکردیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے کہاکہ مجرمانہ بدنیتی ہے تواسے سامنے لائیں ،ْاسی صورت میں کارروائی کی جاسکتی ہے، ہمیں پرواہ نہیں لوگ کیا کہتے ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کسی ممبر کو تبدیل نہیں کررہے ،ْ ہم جے آئی ٹی کو ہدایت دیتے ہیں کہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے، جے آئی ٹی پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے ،ْقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شخص کو عزت و تکریم دی جائے وزیراعظم ہو یا عام شہری کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔