سینٹ میں قومی ترقیاتی پروگرام کے تحت صوبوں میں 384 ارب روپے لاگت کے منصوبوں کی تفصیلات پیش کردی گئیں

پیر 29 مئی 2017 15:48

سینٹ میں قومی ترقیاتی پروگرام کے تحت صوبوں میں 384 ارب روپے لاگت کے منصوبوں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 مئی2017ء) سینٹ میں پیر کو قومی ترقیاتی پروگرام 2017-18 کے تحت صوبوں میں 384 ارب روپے لاگت کے منصوبوں کی تفصیلات پیش کردی گئیں، نئے مالی سال میں اسلام آباد میں 42 ارب روپے‘ پنجاب میں 57 ارب روپے‘ سندھ میں 70 ارب روپے‘ خیبرپختونخوا میں 93 ارب روپے‘ بلوچستان میں 80 ارب روپے‘ آزاد کشمیر میں 32 ارب روپے ‘ گلگت بلتستان اور فاٹا میں 29,29 ارب روپے لاگت کے ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

گزشتہ روز سینٹ میں مالی سال 2017-18 کے پی ایس ڈی پی میں صوبوں کے لئے مختص رقوم ی تفصیلات کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی ترقیاتی احسن اقبال نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں ملکی ضروریات کو ترجیح دی جارہی ہے۔ بے ہنگم اور بے تحاشہ منصوبوں کی وجہ ترقی کے ثمرات نہ مل سکے۔

(جاری ہے)

ہم صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد معاشی ترقی کے ایجنڈے کے لئے ویژن 2025 تیار،چاروں وزراء اعلیٰ نے اس پر دستخط کئے۔

تین بڑے شعبوں کو ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے زیادہ سرمایہ کاری ان شعبوں میں کی، پسماندہ علاقے ترجیحات میں شامل ہیں۔ قومی ڈھانچے کی تعمیر وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم 14 ارب ڈالر لاگت کے منصوبہ ہے۔ اسے کسی صوبے کا منصوبہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ قومی منصوبہ ہے۔ یہی حیثیت داسو ڈیم کی ہے۔ اس کے فوائد پورے ملک کو ملیں گے۔

بندرگاہ ساحل پر ہی بن سکتی ہے۔ اس لئے پورٹ کراچی کے ساحل سمندر پر اپ گریڈ ہوسکتی ہے۔ اس کا سکوپ پورے ملک کیلئے ہوتا ہے۔ ملتان سکھر موٹر وے بھی کسی ایک صوبے کا منصوبہ نہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ اگر صوبائی بنیاد پر پی ایس ڈی پی کو ترتیب دیں گے تو یہ ملک بھر کیلئے نہیں ہوگا ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دس کھرب روپے کا پی ایس ڈی پی بنایا گیا ہے۔

پورے ملک کا ترقیاتی بجٹ 25 کھرب روپے ہے ۔ٹیکسوں کی وصولی میں اصافہ کی وجہ سے صوبوں کے ترقیاتی بجٹ بڑھ گئے ہیں۔ محاصل ساڑھے تین کھرب سے زائد ہیں ۔ قومی ترقیاتی بجٹ پچیس کھرب روپے کا ہے۔اس میں 1.1 ٹریلین روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ ہے جاری منصوبوں کو جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے نئے منصوبوں کے لئے رقوم کم رکھی گئی ہیں۔ انفرسٹرکچر کے لئے 411 ارب روپے ‘ 404 ارب ریلوے توانائی کے منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں ۔

تیسرا شعبہ انسانی وسائل کی ترقی کا ہے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ بارہ ارب روپے سے بڑھا کر ساڑھے پنتیس سے زائد کردیا جے نوجوانوں کے لئے ہر ضلع میں جامعات کے کیمپس کھولے جائیں گے۔ کوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر یونیورسٹی کیمپس سے محروم نہیں رہے گا۔ اعلیٰ تعلیمی وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے۔ دس ہزار طلبہ کو آئندہ دس سالوں میں امریکہ کی بہترین یونیورسٹی میں بھجوایا جائے گا ۔

پہلے حکومتیں امریکہ سے میزائل ایف سولہ لیتی تھیں۔ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بات کررہے ہیں۔ سائبر سکیورٹی کے چیلنجز سے بھی آگاہ ہیں۔ نوجوانوں کی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں استعداد کو بڑھایا جائے گا۔ پاکستان میں تہذیبوں کا مرکز قائم کریں گے تاکہ تہذیبوں میں تصادم کے تاثر کی نفی کی جاسکے۔ پاکستان کو دنیا میں نئی پہچان دیں گے ۔گرین پاکستان کے تحت نئے منصوبے شروع ہونگے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے لئے 180 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ڈیرہ اسماعیل خان سے یارک تک مغربی روٹ کیلئے 38 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں وفاقی حکومت چوبیس ارب روپے کی لاگت سے ترقیاتی منصوبہ مکمل کرے گی۔ اسی طرح کراچی میں پانی کے لئے ساڑھے بارہ ارب روپے دیئے جائیں گے۔ ساڑھے تین ارب روپے دے چکے ہیں۔ 9ارب روپے 2017-18 میں دیئے جائیں گے۔

17 ارب روپے بلوچستان کے لئے رکھے گئے ہیں۔ فاٹا‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر کے لئے مالیاتی کمیشن میں حصہ ہوگا۔ آزاد کشمیر کے لئے بارہ ارب روپے سے بڑھا کر ترقیاتی گرانٹ بائیس ارب روپے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کیلئے دس ارب روپے سے بڑھا کر اس گرانٹ کو پندرہ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ فاٹا کی ترقیاتی گرانٹ میں بھی ڈھائی ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بے گھر خاندانوں کی بحالی و آباد کاری کے لئے 90 ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 384 ارب روپے لاگت کے قومی منصوبے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قومی ترقیاتی پروگرام کے تحت وفاق میں 42 ارب روپے پنجاب میں 57 ارب روپے سندھ میں 70 ارب روپے ‘ خیبرپختونخوا میں 93 ارب روپے بلوچستان میں 80 ارب روپے‘ آزاد کشمیر میں 32 ارب روپے اسی طرح گلگت بلتستان اور فاٹا کے لئے 29‘ 29 ارب روپے لاگت کے ترقیاتی منصوبے رکھے گئے ہیں۔