طب کا امام بوعلی سینامیڈیکل سائنس میں مغربی دنیا کی درسگاہوں میں انقلاب برپا کرنے والی کتب سے آج مسلمان ناآشنا - البیرونی نے ریاضیات و فلکیات میں خصوصی مہارت حاصل کی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 29 مئی 2017 12:09

طب کا امام بوعلی سینامیڈیکل سائنس میں مغربی دنیا کی درسگاہوں میں انقلاب ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29مئی۔2017ء) طب اور فلسفے میںمشرق و مغرب کو ملا کر بو علی سینا سے زیادہ نامی حکیم پیدا نہیں ہوا۔خصوصاً طِب میں تو وہ امام مانا جاتا ہے اور پندرھویں صدی عیسوی تک مشرق کے علاوہ یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھی ا س کی کتاب ”القانون“ داخلِ نصاب رہی۔بو علی سینا کا نام حسین تھا۔ والد کا نام عبدا للہ تھا۔

خاندان ”ابن سینا “کی نسبت مشہور تھا جو غالباً بو علی کے چوتھے یا پانچویں جد تھے۔ آپ کے والد عبداللہ بخارا کے ایک علاقے کے حاکم تھے۔وہیں اگست ۰۸۹ میں بو علی پیدا ہوا۔ بو علی سینا بچپن سے ہی ذہین و فطین اور بلا کا حاضر دماغ تھا۔ تحقیق و تجسس کا شوق اوائل عمری سے تھا ہر چیز کو بہت غور اور فکری انداز سے دیکھنا اس کی عادت تھی۔

(جاری ہے)

دس سال کی عمر میں علوم عربیہ کی تعلیم سے فراغت حاصل کی اور چھ سال تک فلسفہ، ریاضیات ، ہیئت اور طب کا مطالعہ کیا۔

سترہ سال کی عمر میں اس کی طبی مہارت کا یہ عالم تھا کہ اُس نے ایک سامانی بادشاہ نوح ابن منصور کا علاج کیا جو ایک نہایت خطرناک مرض میں مبتلا تھا۔ جب بادشاہ کو صحت حاصل ہوئی تو اُسن نے دوسرے انعامات کے علاوہ بو علی سینا کو اُس کی خواہش پر اپنے کتب خانہ شاہی سے اِستفادے کی اجازت بھی دے دی۔سامانی خاندان ۴۰۰۱ میں ختم ہوگیا تو بوعلی سینا نے کچھ مدّت خوارزم کے بادشاہ کی ملازمت کی۔

اس کے بعد جرجان میں منطق اور ہیئت کی تدریس میں مصروف رہا۔ جہاں سے وہ ہمدان پہنچااورشمس الدولہ کا وزیر بن گیا۔ یہاں فوج نے بغاوت کردی اور مطالبہ کیا کہ وزیر کو قتل کردیا جائے۔ اس پر بوعلی سینا چھپ کر نکل گیا۔ کچھ مدت کے بعد ہمدان میں شاہِ اصفہان کی حکومت قائم ہوگئی اور بو علی سینا تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگیا۔شیخ نے بہت سی تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں سے دو نہایت ضخیم کتابیں بہت مشہور ہیں۔

”کتاب الشفائ“ اٹھارہ جلدوں میں اور ”القانون فی الطب“چودہ جلدوں میں ہے۔ تمام علوم اور فنون کے متعلق ایک انسائیکلوپیڈیا بھی ”لسان العرب“ کے نام سے مرتب کیا۔ منطق ، فلسفہ،ریاضی، ہیئت ،طب اور مابعد الطبیعات میں عدیم المثال قابلیت رکھتا تھا۔ اُس کی کتاب ”القانون“ یورپ کی یونیورسٹیوں میں پندرھویں صدی کے اواخر تک کل نصاب تعلیم کا نصف سے زیادہ حصہ تھی اور مو¿نٹ پلیئر اور لوویں کی یونیورسٹیوں میں ۰۵۶۱ تک داخلِ نصاب چلی آتی تھی۔

اس کی تقریباً سب اہم کتابوں کے ترجمے یورپی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔بو علی سینا سخت دماغی محنت کا عادی تھا۔ ایک دفعہ ایک جنگی مہم کے سلسلے میں فوج کے ساتھ جارہا تھا کہ شدید قولنج میں مبتلا ہوا اور جون ۷۳۰۱ میں انتقال کرگیا۔ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی بھی بو علی سینا کی طرح بڑا عالم و فاضل تھا۔ اُس نے ہندوستان میں آکر ہندوﺅں کے علوم و فنون بھی سیکھے اور اُس کے بعد اُن کے صحیح اور مفصّل حالات سے دُنیا کو روشناس کروایا۔

البیرونی ۳۷۹ میںخوارزم کے پاس ایک قصبہ بیرُون میں پیدا ہوئے۔ماں باپ غریب تھے، لیکن البیرونی بچپن ہی سے نہایت ذہین و طبّاع تھا اور پڑھنے لکھنے میں دوسرے طالب علموں سے ہمیشہ آگے رہتا تھا۔ اُس کے دو اُستادوں نے اُس کو فلکیات اور ریاضیات کی تعلیم دی ، جن سے البیرونی کو خاص شغف تھا۔ اُس کی شہرت سُن کر سُلطان محمود غزنوی نے اُسے غزنیں بلوا لیا او ریہاں سے وہ پنجاب و کشمیر کی طرف گیا۔

اُس نے سنسکرت سیکھی اور یہاں کے ہندوانہ علوم میں مہارت حاصل کی۔ یہاںتک کہ اس ملک کے پنڈت اُس کو ”ودیّا ساگر“ یعنی علم کا سمندر کہنے لگے۔ بڑے بڑے پنڈت اُس کی شاگردی کرکے ریاضیات و فلکیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔البیرونی نے کوئی ایک سو کتابیں لکھی ہوں گی ، لیکن آج کل اُن میں سے بہت ہی کم دستیاب ہیں۔ اُس کی سب سے بڑی اور مشہور کتاب علمِ ہیئت پر ”القانون المسعودی“ ہے۔

دوسری ”کتاب الہند“ ہے ، جس میں اُس نے ہندوستا ن کا جغرافیہ لکھا ، یہاں کے لوگوں کے رہنے سہنے کے حالات ، اُ ن کے طور طریقوں ، رسموں اورمذہبوں کی تفصیل بیان کی اور اُن کے علوم مثلاً ہیئت ، ہندسہ اور فسلفہ کو اہل عالم کی معلومات کے لئے دلآویزی اور سلاست کے ساتھ قلمبند کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں لاہور ، پشاور، ملتان، سیالکوٹ اور جہلم کا ذکر کرتا ہے۔

اُس زمانے میں محمود غزنوی اور ہندوستانی راجاﺅں کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں اور ہندوﺅں کا دل مسلمانوں کے طرف سے کھٹّا ہوگیا تھا ، لیکن البیرونی دن رات پنڈتوں سے ملتا جُلتا اور وہ سب اُس کا تہہ دل سے احترام کرتے تھے۔البیرونی خوارزم کے بادشاہ مامون کے دربار سے بھی وابستہ رہا، جہاں بو علی سینا بھی موجود تھا۔ اور محمودغزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کی نظر میں بھی البیرونی کی بہت عزت و وقعت تھی۔ البیرونی کا انتقال ۸۴۰۱ میں ہوا۔

متعلقہ عنوان :