واشنگٹن کو اپنی افغان پالیسی کی تعمیل کیلئے پاکستان کے خلاف سرحد پار سمیت کوئی بھی موثر اقدام اٹھا لینا چاہیے‘ رکن امریکی کانگریس

ہمیں ایک مرتبہ پھر طالبان، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ یا پاکستان میں موجود ان جیسے دیگر گروپس کیخلاف اسٹرائیک کاسوچنا پڑیگا‘ ایڈم کنزنگر

ہفتہ 27 مئی 2017 22:31

واشنگٹن کو اپنی افغان پالیسی کی تعمیل کیلئے پاکستان کے خلاف سرحد پار ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2017ء) امریکی کانگریس کے رکن ایڈم کنزنگر نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو اپنی افغان پالیسی کی تعمیل کے لئے پاکستان کے خلاف سرحد پار سمیت کوئی بھی موثر اقدام اٹھا لینا چاہیے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ولسن سینٹر میں ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کنزنگر نے کہا کہ اگر زیادہ امداد یا کم امداد سے کام بن سکتا ہے تو میرے خیال میں یہ بہتر ہے لیکن ہمیں حتمی طور پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ضرورت پڑے گی تو ہم سرحد پار جائیں گے کیونکہ وہ ناکافی کارروائی کررہے ہیں۔

ایڈم کنزنگر افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے ولسن سینٹر کے سربراہ ڈائریکٹر، اور صدر جین ہرمین کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔

(جاری ہے)

امریکی ریاست الینوئے سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن رکن پارلیمنٹ نے مشورہ دیا کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو سخت ترین بنائے۔ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہمیں پاکستان کے ساتھ سختی برتنے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ جب صدر ٹرمپ اپنی افغان پالیسی پر بحث کررہے ہوں تو وہاں پر پاکستان کا ذکر بھی ضرور آئے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو سرحد بنانے کے حوالے سے کنزنگر نے کہا کہ ہم بارڈر سکیورٹی اور افغانستان کے بارڈر گارڈز کے منصوبے پر بات کرچکے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس وقت پھیلے ہوئے ہیں۔امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی پر بات کرتے ہوئے کانگریس کے رکن نے کہا کہ ہمیں چند چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں ہمیں ایک مرتبہ پھر طالبان، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ یا پاکستان میں موجود ان جیسے دیگر گروپس کے خلاف اسٹرائیک کو شروع کرنے کا سوچنا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو مکمل طور پر پیچھے نہیں کرسکتے کیونکہ وہ دوسرے پہلو سے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورت حال موجود ہے۔