ملک کے معروف و جید علماء نے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کر دیا ، محاذ آرائی ، دہشت گردی اور شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال حرام قرار

اسلام اور برداشت کے نام پر دہشت گردی مسترد ، ملک ، اس کی حکومت ،فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے خلاف مسلح کارروائی اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت ہے ،ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ، تحریب و فساد اور دہشتگردی کی تمام صورتیں حرام قطعی ہیں ، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی حمایت کرتے ہیں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء اور مشائخ سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں مختلف مسالک اور طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کا فتویٰ، 31 معروف علماء کے دستخط موجود

ہفتہ 27 مئی 2017 21:41

ملک کے معروف و جید علماء نے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف متفقہ فتویٰ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 مئی2017ء) وفاق المدارس پاکستان ،وفاق المدارس العربیہ، رابطة المدارس پاکستان ، وفاق المدارس ، پاکستان علماء کونسل اور دارالعلوم کراچی سمیت مختلف اداروں ، مسالک اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور مشائخ عظام نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے محاذ آرائی ، فساد ، دہشت گردی ، شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال کو حرام قرار دے دیا اور کہا کہ اسلام اور برداشت کے نام پر دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں ،دستور کے کسی حصہ پر عمل کرنے میںکسی کو کوتاہی کی بنا پرملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار کرنا کسی صورت درست نہیں ۔

لہذا اس کی بناء پر ملک یا اس کی حکومت ، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ، ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم ہے، نفاذ شریعت کے نام پرطاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں حرام قطعی ، شریعت کی رو سے ممنوع اور بغاوت ہیں ، ریاست کے ملک دشمن عناصر کو کچلنے کے لئے شروع کیے گئے آپریشنز ’’ضرب عضب ‘‘ اور ’’رد الفساد‘‘ کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء اورمشائخ سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ متفقہ فتویٰ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام یہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں مذہبی برداشت و ہم آہنگی کے فروغ کے موضوع پرمنعقدہ کانفرنس کے اختتام پر جاری کیا گیا ، جس میں صدر مملکت ممنون حسین اور مسلم ممالک کے جیدعلماء نے بھی شرکت کی ۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے اختتام پر متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس پر ملک کے معروف 31 علماء کرام و مشائخ عظام کے دستخط موجود ہیں ۔ متفقہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کے تقاضوں کے عین مطابق پیغام پاکستان کے ذریعے درج ذیل اقدامات کا اعلامیہ پیش کیا جاتا ہے ۔پاکستان کا 1973 کا دستوراسلامی اور جمہوری ہے اور یہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان سماجی اور عمرانی معاہدہ ہے ۔

جس کی توثیق تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر کی ہوئی ہے ۔ اس لئے اس دستور کی بالا دستی اور عملدرآمد کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا ۔ نیز ہر پاکستانی ، ریاست پاکستان کے ساتھ ہر صورت میں اپنی وفاداری کا وعدہ وفا کرے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی رو سے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہے ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے تحت مساوات حیثیت و مواقع ، قانون کی نظر میں برابری ، اقتصادی اور سیاسی عدل ، اظہار خیال ، عقیدہ ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہے ۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کے دستور کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ نیز دستور میں اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کی پر امن جدوجہد کرنا ہر مسلمان کا دینی حق ہے ۔ یہ حق دستور پاکستان کے تحت اسے حاصل ہے اور اس کی ملک میں کوئی ممانعت نہیں ہے جب کہ بہت سے ملی اورقومی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے رو گردانی ہے ۔ اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلامی نظریاتی کونسل ، دفاعی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ بینچ کو مزید فعال بنایا جائے ۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دستور کے کسی حصہ پر عمل کرنے میںکسی کو کوتاہی کی بنا پرملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار کرنا کسی صورت درست نہیں ۔ لہذا اس کی بناء پر ملک یا اس کی حکومت ، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے ۔

نفاذ شریعت کے نام پرطاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے ، حرام قطعی ہیں ، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت ہیں ۔ یہ ریاست ، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام ترفائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے ۔ لہذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لئے ’’ضرب عضب ‘‘ اور ’’رد الفساد‘‘ کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھے ہیں اور قومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے ان کی مکمل حمایت کی جاتی ہے ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء اورمشائخ سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کرتی ہے ۔ تمام دینی مسالک کے نمائندے علماء نے شرعی دلائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرام قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا اس کی مکمل حمایت کی جاتی ہے ۔

نیز لسانی ، علاقائی ، مذہبی اور مسلکی عصبیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں یہ سب شریعت کے احکام کے منافی اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں لہذا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں ۔ فرقہ وارانہ منافرت ، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فسادفی الارض ہے ۔

نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی اور ملی جرم ہے ۔ وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے ملک کی تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت ، نفرت انگیزی، انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے تو اس کے خلاف ثبوت و شواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔

انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کے خلاف فکری جہاد اور انتظامی اقدامات ناگزیر ہیں ۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ یہ منفی رجحان مختلف قسم کے تعلیمی اداروں میں پایا جاتا ہے ۔ سو یہ فکر جہاں کہیں بھی ہو ہماری دشمن ہے۔ یہ لوگ خواہ کسی بھی درسگاہ سے منسلک ہوں ، کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔ ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے لیکن اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص ، مسلک یا ادارہ کے خلاف اہانت اور نفرت انگیزب اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر کی اجازت نہیں ۔

صراحت، کنایہ ، اشارہ، تعریض اور توریہ کی ذریعے کسی بھی صورت میں نبی کریم ؐ انبیائے کرام و رسل عظام علیھم السلام ، امہات المومنین ، اہل بیت اطہار ، صحابہ کرام ، شعائر اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 295 کی تمام دفعات کو ریاستی اداروں کے ذریعے لفظا اور معنی نافذ کیا جائے اور اگر ان قوانین کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے تو اس کے ازالے کی احسن تدبیر ضروری ہے ۔

مگر قانون کو کسی صورت میں کوئی فرد یا گروہ اپنے ہاتھ میں لینے اور متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کا مجاز نہیں ۔ عالم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ صریح کفریہ کلمات کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی حکم بتائے ۔ البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے ۔ سرزمین پاک اللہ تعالیٓ کی مقدس امانت ہے اس کا ایک ایک چپہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے فروغ ، دہشت گرد کے گروہوں کی فکری و عملی تیاری دہشت گردی کے لئے لوگوں کی بھرتی ، دیگر ممالک میں دہشت گردی ، مداخلت اور اس جیسے دوسرے ناپاک عزام کے حصول کے لئے ہر گز استعمال نہ ہونے دی جائے ۔

مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی ۔ لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہیں ہیں ۔ درس گاہوں میں اختلاف رائے کے اسلامی آداب کو تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے ۔

اسلامی تعلیمات اور 1973 کے متفقہ دستور کے مطابق حکومت اور عوام کے حقوق فرائض طے شدہ ہیں جس طرح عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض درست الامی تعلیمات اور دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق انجام دیں اسی طرح ریاسی اداروے اور ان کے عہدیدار بھی اپنے فرائض حقیقی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ادا کرنے کے پابند ہیں ۔

اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت ، حریت ، مساوات ، برداشت ، رواداری ، باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی پاکستانی معاشرے کی تشکیل جدید ضروری ہے تاکہ پر امن بقائے باہمی کے لئے فضا سازگار ہو۔ احترام انسانیت ، اکرام مسلم نیز بزرگوں ، عورتوں ، بچوں ، خواجہ سرائوں ، معذروں، الغرض تمام محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اسلامی احکام کا نفاذ ضروری ہیخ نیز پاکستانی معاشرے میں انسانی اقدار اور اخوت اسلامی پر مبنی اسلامی اداروں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

متفقہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیر مسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے دہی شہری حقوق حاصل ہیں جو پابند آئین و قانون مسلمانوں کو حاصل ہیں نیز یہ کہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہوارون کے موقع پر اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور دینی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

اسلام خواتین کو احترام عطاء کرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے رسول اللہ ؐ نے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی خواتین کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تلقین کی ہے۔ نیز رسول اللہؐ کے دور سے اسلامی ریاست میں خواتین کی تعلیم و تربیت جاری رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو حق رائے دہی ‘ حصول تعلیم اور ملازمت کا حق حاصل ہے۔ خواتین کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا اور خواتین اساتذہ پر حملے کرنا انسانی اقدار ‘ اسلامی تعلیمات اور قانون کے منافی ہے۔

اسی طرح اسلامی تعلیمات کی رو سے غیرت کے نام پر قتل ‘ قرآن سے شادی ‘ وٹہ سٹہ ‘ ونی اور خواتین کے دیگر حقوق کی پامالی احکامات شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ حکومت قانون قصاص و تعزیر کے علاوہ دیگر حق تلفیوں کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وراثت میں خواتین کا حق یقینی بنائے۔ لائوڈ سپیکر کے ہر طرح کے غیر قانونی استعمال کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے اور متعلقہ قانون پر من و عن عمل کیا جائے اور منبر و محراب سے جاری ہونے والے نفرت انگیز خطابات کو ریکارڈ کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے نیز ٹیلیویژن چینلوں پر مذہبی موضوعات پر مناظرہ بازی کو قانوناً ممنوع اور قابل دست اندازی پولیس قرار دیا جائے۔

الیکٹرانک میڈیا کے حق آزادی اظہار کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور اس کی حدود کا تعین کیا جائے او ر ہر اس پروگرام پر پابندی لگائی جائے جو پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔ دستور پاکستان 1973ء اسلامی اور جمہوری ہے اور یہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان ایسا عمرانی معاہدہ ہے جس کی تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی حمایت حاصل ہے۔

اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میںکوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس دستور کی موجودگی میں کسی فرد یا گروہ کو ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدوجہد کا کوئی حق حاصل ہے۔ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ‘ ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی نیز لسانی ‘ علاقائی ‘ مذہبی ‘ مسلکی اختلافات اور قومیت کے نام پر تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں احکام شریعت کے خلاف ہیں اور پاکستان کے دستور و قانون سے بغاوت ہیں۔

طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسرے پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکامات کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی و ملی جرم بھی ہے۔ دفاع پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے ایسی تخریبی کارروائیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لئے ان کے تدارک کے لئے بھرپور انتظامی ‘ فکری اور دفاعی اقدامات لازم ہیں۔

دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرے کی ایسی تشکیل جدید ضروری ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں منافرت‘ تنگ نظری ‘ عدم برداشت اور بہتان تراشی جیسے بڑھتے ہ وئے رجحانات کا خاتمہ کیا جاسکے اور ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں برداشت ‘ رواداری ‘ باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی حقوق اور فرائض کا نظام قائم ہو۔ جاری کئے گئے متفقہ فتویٰ میں مختلف مسالک اور مکاتب فکر 31 علماء کرام اور مشائخ عظام کے دستخط موجود ہیں ان میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ‘ مولانا مفتی منیب الرحمن ‘ مولانا عبدالمالک ‘ مولانا عبدالرزاق سکندر ‘ مولانا محمد حنیف جالندھری ‘ علامہ سید ریاض حسین نجفی ‘ مولانا محمد یاسین ظفر ‘ مولانا ڈاکٹر ابو الحسن محمد شاہ ‘ مولانا مفتی محمد نعیم ‘ مولانا تنویر احمد جلالی ‘ مولانا محمد اسحاق ظفر ‘ مولانا غلام مرتضیٰ ہزاروی ‘ مولانا ڈاکٹر محمد ظفر اقبال جلالی ‘ مولانا ابو الظفر غلام محمد سیالوی ‘ مولانا زاہد محمود قاسمی ‘ مولانا ڈاکٹر سید محمد نجفی ‘ مولانا محمد افضل حیدری ‘ مولانا سعید عبدالرزاق ‘ مولانا ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن ‘ مولانا سید قطب ‘ مولانا عبدالحق ثانی ‘ مولانا مفتی محمود الحسن محمود ‘ مولانا پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب ‘ مولانا محمد عبدالقادر ‘ مولانا حامد الحق حقانی ‘ مولانا سیف اللہ ‘ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ ‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر حکیم ‘ تنویر احمد علوی ‘ مولانا محمد شریف ہزاروی ‘ ملک مومن حسین اور مفتی رحیم اللہ شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :