سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے، سرتاج عزیز

سلامتی کونسل کی قراردادوں اور 70 سال قبل کشمیریوں سے کئے گئے وعدے پر عمل کرنے کی ذمہ دار ہے مشیر خارجہ کا مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط، بھارتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار

ہفتہ 27 مئی 2017 19:12

سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے مقبوضہ کشمیر میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2017ء) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور 70 سال قبل کشمیریوں سے کئے گئے وعدے پر عمل کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹریز کے نام خط میں وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نیویارک میں مشیر خارجہ کا خط پاکستان کے مستقل مشن کی جانب سے بجھوایا گیا جسے سلامتی کونسل کے صدر نے تمام رکن ممالک میں تقسیم کیا۔

(جاری ہے)

خط میں سیکرٹری جنرل کو بتایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی صورتحال بالخصوص بڑے پیمانے پر قتل عام اور پیلٹ گنز کے استعمال سے بچوں و خواتین سمیت سینکڑوں نوجوانون کی بصارت سے محرومی اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی انتہائی تشویش کی بات ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔مشیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو بھارتی منصوبوں سے متعلق تمام متعلقہ اعداد و شمار ،اقدامات اور شواہد کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بھارت کی 31 رکنی پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے حال ہی میں ’’مغربی پاکستانی مہاجرین‘‘کو مستقل بنیادوں پر مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنیکی تجویز پیش کی تھی جس سے مقبوضہ وادی کے عوام میں شدید بے چینی پھیل چکی ہے۔

بھارتی حکومت ان مہاجرین کو بتدریج مقبوضہ کشمیر میں مسقتل آباد کرنے کیلئے ا قدامات کر رہی ہیں جو نہ صرف ریاستی آئین بلکہ تنازعہ کشمیر سے متعلق یو این سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے بھی منافی ہیں۔خط میں مغربی پاکستان کے مہاجرین کے حوالے سے بھی مکمل تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی غرض سے بھارت نے دوسرے اقدام کے تحت جموں و کشمیر سے تعلق نہ رکھنے والے ہندو خاندانوں کے بچوں کو مسقل سکونتی سرٹیفکیٹس جاری کر دیئے ہیں،اب تک ضلع کشتوار میں پانچ سو بچوںکو سرٹیفکیٹ دئے گئے ہیں۔

حال ہی میں ایک نئی تجویز بھی زیر غور ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کم سے کم تین سال تک ملازمت کرنے والے بھارتی فوج کے ریٹائرڈ یا جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے ملازمین کو زمینیں الاٹ کی جائینگی،تاہم یہ سب کچھ ریٹائرڈ ملازمین کے’ویلفیئر‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔خط میں مزید بتایا گیا ہے کہ غیر کشمیری ہندو صنعت کاروں کو انڈسٹریل زونز سے باہر دیگر مقامات پر زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔

اسکے علاوہ بھارتی حکومت نے ریاستی حکومت سے مختلف ریاستوں میں آبادکشمیری پنڈتوں کیلئے علیحدہ ٹاونز کیلئے اراضی مختص کرنے کو کہا ہے۔ٹائون شپس کیلئے سات مقامات پر اراضی کی نشاندہی کی جا چکی ہے ان میں سے تین مقامات کو شارٹ لسٹ بھی کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حریت رہنماوں اور عام کشمیریوں نے ہمیشہ کشمیری پنڈتوں کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کا خیر مقدم کیا ہے تا ہم وہ علیحدہ ٹاون شپس کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں جس کی آڑ میں بھارت کو غیر کشمیریوں کی آباد کاری کا موقع ملے گا۔

مشیر خارجہ نے خط میں مطالبہ کیاہے کہ ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ فوری اس معاملے پر توجہ دے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ قراردادوں اور وعدوں پر عملدرآمدکرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے جس سے کشمیری عوام کے مسائل کا ازالہ ہوسکے گا اور جنوبی ایشیائی خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہوگا۔