مسلمان کی حیثیت سے ہمیں پوری دنیا کا امن عزیز ہے ، ہم عالمِ انسانیت کی ترقی ، خوش حالی اور فلاح و بہبود کے آرزومند ہیں، ہمارا یہی عقیدہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے امنِ عالم کے لیے پاکستان نے ہمیشہ پرُجوش کردار ادا کیا ہے،صدر مملکت ممنون حسین کا سیمینار سے خطاب

جمعہ 26 مئی 2017 22:35

مسلمان کی حیثیت سے ہمیں پوری دنیا کا امن عزیز ہے ، ہم عالمِ انسانیت ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے ہمیں پوری دنیا کا امن عزیز ہے اور ہم عالمِ انسانیت کی ترقی ، خوش حالی اور فلاح و بہبود کے آرزومند ہیں، ہمارا یہی عقیدہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے امنِ عالم کے لیے پاکستان نے ہمیشہ پرُجوش کردار ادا کیا ہے،ہمارا یہ کردار آئندہ بھی جاری رہے گا۔

وہ جمعہ کو یہاں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان اور یہ خطہ گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے ایک ایسی کش مکش کا شکار ہے جس میں خون ریزی بھی بہت ہوئی اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس خون ریزی اور ان جنگوں کے اسباب غیر مقامی ہیں لیکن بیرونی مفادات کے گورکھ دھندے سے ہمارا معاشرہ ہر سطح پرمتاثر ہوا جس سے ہمارے نوجوانوں میں ردِعمل اور ہیجان کی کیفیات بھی پیدا ہوئیں اور یہ سوال بھی پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا کہ ہمارے اسلاف نے جس راستے کا تعین کیا تھا، وہ درست بھی ہے یا نہیں۔

(جاری ہے)

یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کی بازگشت ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی، ہرعمل میں سنائی دیتی ہے۔ معاصر دنیا پر ان سوالات کے جواب واضح کرنے کے لیے کہ ان کے ذہنوں میں پاکستان، مسلم دنیا اور اہلِ اسلام کے بارے میں جو تصورات پائے جاتے ہیں ، حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اور اس کے اداری؛ ادارہ تحقیقات اسلامی کی اس سرگرمی نے وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیاہے جس پر میں اس کے ذمہ داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ ہمارے علمی ادارے ان موضوعات پر نہا یت اخلاص اورسنجیدگی سے کام جاری رکھیں گے جس کے نتیجے میں ایک ایسا معتبر پلیٹ فارم وجود میں آجائے گا جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام اور پوری دنیا کے دانش ور اکٹھے ہو کر اپنے عہد کے مسائل کا حل تلاش کر سکیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پون صدی کے تجربات اور واقعات و حوادث کے بعد اگر ہم میثاقِ مدینہ کی مقدس دستاویز کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل نو کے بارے میں غورو فکر کر رہے ہیں تو یہ اطمینان کی بات ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سمت درست ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میثاقِ مدینہ ریاست کے جدید تصور کی پہلی اور بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس پہلو پر کم غور کیا گیا ہے کہ میثاقِ مدینہ ہی دنیا کی وہ پہلی دستاویز ہے جسے صرف اسلام کے پیروکار وں میں ہی نہیں بلکہ اُس عہد کے غیر مسلم معاشروں میں بھی اعتبار اور اعتماد کا درجہ حاصل تھا، انھوں نے اسے تسلیم کر کے دنیا کی پہلی جدید ریاست کے قیام میں مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دستاویز نہ گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آئی تھی اور نہ اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا بلکہ یہ ایک ایسا وسیع البنیاد عہد نامہ تھا جس کا مقصد پوری انسانیت کا تحفظ اور اس کی فلاح و بہبود تھا ۔ صدر مملکت نے کہا کہ موجودہ عہد میں ہماری صفوں میں سے ہی یہ سوال اٹھایا جاچکا ہے کہ اسلامی عقائد کے نقطہٴ نظرسے ریاست کے وجود کی کوئی گنجائش ہے بھی یا نہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے ہمارے معاشرے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو پریشان کر رکھا ہے لیکن اگر مفاداتی نظریات سے اوپر اٹھ کر میثاقِ مدینہ سے رہنمائی حاصل کی جاتی تو پتہ چلتا کہ دنیا کے اس پہلے تحریری دستور میں طے کیا گیا تھا کہ امن یا جنگ مدینہ میں بسنے والی قوم ہر دو صورتوں میں ایک محور پر متحد رہے گی اور اس محور کا نام ہے ریاست۔

اس میثاق کے تحت مسلمانوں اور اہلِ خیبر کو سیاسی اعتبار سے ایک امت قرار دیا گیا تھا۔اس معاہدے کے تحت ہر فریق نے عہد کیا تھاکہ اُن کی وفاداری ریاست کے ساتھ ہو گی یعنی زمانہ ٴ امن یا جنگ دونوں صورتوں میں وہ متحد رہیں گے ۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوت تھی جس نے مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلم قبائل کو بھی اس عظیم دستاویز پر متفق کر دیا اس کا جواب صرف یہی ہے کہ یہ معجزہ کردار کی طاقت سے رونما ہوا ۔

یہ خوبی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات میں ہی پائی جاتی تھی کہ وہ کسی گروہی ، نسلی اور لسانی تعصب سے بالاتر ہو کر حق دار کو اُس کا حق عطا کرتے، مظلوم کی دادرسی فرماتے اور محروم کے ساتھ فیاضی سے پیش آتے ۔انہوں نے کہا کہ شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے 1930ء میں جب نظریہ ٴ پاکستان پیش کیا تو وہ ایسے ہی معاشرے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی ولولہ انگیز قیادت سے قیام پاکستان کی صورت میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا تو اُن کا آئیڈیل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد قرار داد پاکستان سے لے کر 1973ء تک طویل دستوری سفر بھی ہمارے اسی عزم کی کہانی بیان کرتا ہے۔ خرابی اُس وقت رونما ہوئی جب بزرگوں کے قائم کردہ معیار ات سے رو گردانی کر کے گروہی مفادات کو پروان چڑھایا گیا اور حرص و حوس کو ہوا دی گئی ۔

مجھے کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی ترقی اور سربلندی کا راز اسلاف کی متعین کیے ہوئے راستے میں ہی پنہاںہے ۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود انسانیت اگر آج بھی میثاقِ مدینہ سے توقعات وابستہ کرتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس دستاویز میں انسان کی بنیادی ضروریات یعنی معیشت، عدل اور تعلیم کو یقینی بنایا گیا ہے ۔

آج اگر ہم اپنے مسائل کی دلدل سے نکل کر ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو روشنی یہیں سے پھوٹے گی ۔ اب یہ ہمارے علماء اور دانش وروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام انسانیت پر غور کریں او ر متضاد مفادات کی جنگوں میں ہلکان ہوجانے والی دنیا کے زخموں پر مرہم رکھ کے اُس کے حقیقی نجات دہندہ بن جائیں۔ یہی پیغام پاکستان ہے اور یہی پیغامِ انسانیت بھی ہے۔