آئندہ مالی سال 2017-18ء کا 5 ہزار 310 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا

ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 4013 ارب ، ترسیلات زر کا تخمینہ 837 ارب 80 کروڑ روپے لگایا گیا، زراعت، صنعت، برآمدات سمیت دیگر شعبوں پر مراعات کا اعلان دفاعی بجٹ میں 79 ارب روپے کا اضافہ، پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کیلئے ضرب عضب سپیشل الائونس کے طور پر 10 فیصد اضافہ کا اعلان سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 2010ء کا 50 فیصد ایڈہاک الائونس ضم کرتے ہوئے اس پر 10 فیصد اضافہ ، بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت سماجی تحفظ کے شعبوں کے بجٹ میں نمایاں اضافہ

جمعہ 26 مئی 2017 22:07

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2017ء) آئندہ مالی سال 2017-18ء کی5 ہزار 310 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 2010ء کا 50 فیصد ایڈہاک الائونس ضم کرتے ہوئے اس پر 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، دفاعی بجٹ میں 79 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 4013 ارب روپے لگایا گیا ہے، ترسیلات زر کا تخمینہ 837 ارب 80 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، زراعت، صنعت، برآمدات سمیت دیگر شعبوں پر مراعات کا اعلان کیا گیا ہے، بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت سماجی تحفظ کے شعبوں کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کیلئے ضرب عضب سپیشل الائونس کے طور پر 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ وزیر خزانہ نے قوم سے اپیل کی کہ وہ معاشی وژن کے حصول کیلئے یکجا اور یکسو ہو کر آگے بڑھے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2017-18ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم اور وزیرخزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو یہ موقع دیا۔

اس موقع پر انہوں نے گزشتہ چار سال کی معاشی کارکردگی کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سال ہماری جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3فیصد ہے جو کہ پچھلے دس سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 81فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20فیصد سالانہ اضافہ ہے۔

2013ء سے اب تک پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں پانچ گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ مالیاتی خسارہ تقریباً 4.2فیصد ہو گا۔ اس سال مشینری کی درآمد میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور صنعت کے لئے لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جبکہ تجارتی اور گھریلو صارفین کے لئے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ سال لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے 2030ء تک دنیا کی 20بڑی اقتصادی طاقتوں (G-20) میں شامل ہونے کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے۔ پوری قوم اس متاثر کن تبدیلی کے کریڈٹ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان، وزیراعظم محمد نواز شریف اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس سال حکومت پاکستان نے پہلی بار صرف قومی ترقی کے لئے قرضے لئے ہیں۔

پہلے ہم نہ صرف ترقیاتی ضروریات بلکہ غیرترقیاتی اخراجات کے لئے بھی قرض لیتے تھے۔ یہ قرضے ہمیں معاشی تنزلی کی طرف لے جا رہے تھے جہاں ہمیں روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ادھار لینا پڑتا تھا اور ان قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ یہ تبدیلی اچھے مالیاتی انتظام، محاصل بڑھانے پر مستقل توجہ دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔

یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، کسی بھی حکومت یا ادارے کے لئے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرض لینے میں کوئی عار نہیں کیونکہ اس کے سماجی اور معاشی فوائد اس پر دیئے جانے والے مارک اپ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے تیز تر، پائیدار اور اجتماعی ترقی حاصل ہو گی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس سال جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.28فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔

چار سال پہلے معاشی ترقی کی شرح 3.68فیصد تھی۔ رواں سال عالمی معیشت میں 3.5فیصد کی شرح سے اضافہ کی توقع ہے۔ اس تناسب کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے اکثر ممالک کی کارکردگی سے بہتر رہی ہے۔ معاشی ترقی کی بلند شرح کے سبب پاکستان میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے مالیاتی نظم و نسق پر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012-13ء میں 8.2فیصد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی محصولات کی وصولی میں اضافہ سے کی جس کی بنیاد انتظامی امور میں بہتری آئی۔ مالی سال 2012-13میں ایف بی آر نے 1,946ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ٹیکس کا ٹارگٹ 3,521ارب روپے ہے اس طرح گزشتہ چار سالوں میں 81فیصد اضافہ ہوا جو کہ اوسطاً 20فیصد سالانہ ہے۔

جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کا تناسب جو کہ مالی سال 2012-13ء میں 10.1فیصد تھا، رواں سال 13.2فیصد متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جون 2013ء کے 9.5فیصد کے مقابلے میں پچھلے 45سال کی کم ترین شرح 5.75فیصد پر ہے۔ پالیسی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے مئی 2017ء تک نجی شعبے کے قرضے کا حجم 507 ارب روپے ہے جبکہ 2012-13ء میں یہ قرضے صرف 93ارب روپے تھے اس کے نتیجے میں ملک میں کاروبار کو فروغ ملا ہے۔

چار سال قبل زرعی قرض کا حجم 336روپے تھا جو مالی سال 2016ء کے اختتام پر 600ارب روپے پر پہنچا اور رواں مالی سال کے لئے 700ارب روپے کا ہدف ہے۔ اس سال جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.8 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیرمعمولی اضافہ مشینری کی درآمد میں تقریباً 40فیصد سے زائد اضافے، صنعتی خام مال، پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمت میں اضافہ اور اس کے علاوہ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلق سی پیک منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہوا۔

مستقبل قریب میں یہ سب پاکستانی معیشت کی بہتری کا عندیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے دوران برآمدات میں گذشتہ سال کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر1.28 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ جون2013ء میں اسٹیٹ بنک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالرز تھے، آج بڑے تجارتی خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے پاس 16 ارب ڈالرز سے زیادہ کے ذخائر ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر شامل کرنے کے بعد21 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔

ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ترسیلات زر بڑھ کر19.9 ارب ڈالرز پر پہنچ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج بہتری کی طرف گامزن ہے اور ایم ایس سی آئی کے مطابق فرنٹیئر مارکیٹ سے ترقی کرکے یکم جون2017ء کو ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گی۔ بلوم برگ نے 2016ء میں اسے ایشیا میں بہترین اورپوری دنیا میں پانچویں بہترین مارکیٹ قراردیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیکس 11مئی 2013ء کے 19,916 پوائنٹس کے مقابلے میں آج52,000 پوائنٹس سے بڑھ چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران مارکیٹ کیپٹلائزیشن 51 ارب ڈالر سے بڑھ کر97 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ90 فیصد اضافہ ہے۔ اسی طرح اس سال مارچ تک5,855 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں جبکہ 4 سال پہلے پورے مالی سال میں صرف3,960 کمپنیاں رجسٹر کی گئی تھیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ مناسب قانونی اور ریگولیٹری فضا مہیا کرنے کیلئے ہم نے اپنے دور حکومت میں24 قوانین بنائے یا تبدیل کئے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک ترقی پذیر معیشت کیلئے درکار قانونی ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کیلئے 10 قوانین پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ اس ہفتے پارلیمنٹ نے کمپنیز لاء 2017ء پاس کیا ہے جس پر میں دونوں ایوانوں کاشکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں کمپنیوں کے لئے کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی رینکنگ میں چار درجے بہتری آئی ہے۔

معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی حوصلہ افزائی کے لئے پہلی بار 40,000روپے مالیت کے رجسٹرڈ بانڈ کا اجراء کیا گیا ہے۔ مالی سال 2017-18 ء میں مختلف مالیت کے دیگر رجسٹرڈ بانڈ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ او ای سی ڈی کے کثیر الجہتی کنونشن برائے باہمی انتظامی معاونت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں ہم ٹیکس کے معاملات میں بین الاقوامی سطح پر کافی زیادہ تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔

اس سے ہماری ٹیکس گورننس میں بہتری آئے گی اور ٹیکس چوری کا موثر سدباب ہو سکے گا۔ اسی طرح سوئٹزرلینڈ کے ساتھ دوہرے ٹیکسوں سے بچائو کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ٹیکس مقاصد کے لئے مالی کھاتوں اور بنکنگ کی معلومات دریافت کرنے پر میسر ہوں گی۔ ان اقدامات کی بدولت نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا بلکہ اقوام عالم کو پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر سطح پر گڈ گور ننس و شفافیت اور احتساب پر یقین رکھتا ہے۔

وزیر خزانہ نے گزشتہ چار سالوں کے دوران کی جانے والی اصلاحات اور ان کے نتیجے میں ملک میں مائیکرو اکنامک استحکام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق حکومت بلند مجموعی اور پائیدار شرح نمو پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2017-18ء کے معاشی اہداف میں جی ڈی پی کی شرح میں 6فیصد اضافہ، سرمایہ کاری 17 فیصد، 1,001ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی اخراجات، 6فیصد سے کم افراط زر، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.1فیصد، ٹیکس کی جی ڈی پی میں شرح 13.7فیصد، زرمبادلہ کے ذخائر چار ماہ کی درآمدات کے برابر، مجموعی قرضوں کو 60فیصد تک رکھنا اور سماجی تحفظ کے اقدامات کو جاری رکھنا شامل ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ان اہداف کے حصول کے لئے ہم نے ایک بجٹ حکمت عملی تشکیل دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے محاصل میں 14فیصد جبکہ وفاقی اخراجات میں 11فیصد تک اضافہ، وفاقی حکومت کی غیرمحصولاتی وصولیاں7فیصد بڑھانا شامل ہیں، جاری اخراجات کو قابو میں رکھتے ہوئے ترقیاتی بجٹ میں مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لئے وفاقی ترقیاتی پروگرام 1.001ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔

یہ رقم موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ715ارب روپے کے تخمینے سے 40فیصد زیادہ ہے اور اگر اس میں صوبائی تخمینہ شامل کریں تو 2017-18کا ترقیاتی بجٹ 2,100ارب روپے سے تجاوز کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت، مالی شعبے، برآمدات، ٹیکسٹائل، سماجی شعبے اور روزگار کیلئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کرنا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور عوام کی آمدن میں بہتری لانا ہے۔

زراعت، ایس ایم ای اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کو مزید فروغ دینے کیلئے ٹیکس مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی قیادت اور کیبنٹ کمیٹی برائے توانائی کے ذریعے ان کی ذاتی نگرانی میں 2018ء کے موسم گرما میں موجودہ 5 سالہ مدت کے اختتام تک تقریباً 10,000 میگا واٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔

انشاء اللہ اس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ ایئر پورٹ، ہسپتال اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ سمیت گوادر کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی جائے گی۔ تقریباً 55 لاکھ ایسے خاندان جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ان کیلئے سالانہ 19.338 روپے فی خاندان بذریعہ خاتون خانہ مالی معاونت جاری رکھی جائے گی۔ اس مقصد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 121 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کہ 2013ء کے 40 ارب روپے کے مقابلے میں 300 فیصد ہے۔

2013ء میں مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد 37 لاکھ تھی جو کہ اب 55 لاکھ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ پرائمری سکولوں کے 13 لاکھ بچوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کیلئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ OFF Peak ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا۔

اس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی مختلف سکیموں کیلئے اس مالی سال میں 20 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ ان میں بزنس لون سکیم، انٹرسٹ فری لون سکیم، ٹریننگ سکیم، سکل ڈویلپمنٹ پروگرام، فیس واپسی سکیم اور لیپ ٹاپ پروگرام شامل ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت معاشرے کے کم آمدن طبقات کو معاشرتی تحفظ فراہم کر رہی ہے وہیں بے نظیر سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے نئے ہنر سیکھنے اور اپنا کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔

اس سلسلے میں حکومت ایک نئی سکیم متعارف کروا رہی ہے۔ آئندہ سال بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے ایسے خاندانوں کو تربیت اور 50 ہزارروپے کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر 250,000 خاندانوں کو یہ گرانٹ دیئے جانے کی تجویز ہے۔ بجلی کے ترسیلی نظام سے دوری پر بسنے والے چھوٹے شہروں کے مکینوں کوبجلی کی فراہمی کیلئے حکومت ورلڈ بنک کے تعاون سے شمسی توانائی سے چلنے والے آف گرڈ نظام متعارف کروائے گی۔

اس اقدام میں بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں مزید بہتری کیلئے حکومت نی2016-17 کے بجٹ کے ذریعے کئی نئے اقدامات لئے جن میں کراپ لون انشورنس سکیم، لائیو سٹاک انشورنس سکیم، ڈیری مصنوعات، لائیو سٹاک اور پولٹری پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت، جراثیم کش ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور کھاد کی قیمت میں کمی قابل ذکر ہیں۔

نتیجتاً یوریا کھاد 1800 روپے فی بوری سے کم ہو کر 1400 روپے اور ڈی اے پی 4200 سے کم ہو کر 2500 روپے ہو گئی۔ کھاد کی قیمتوں میں یہ کمی ٹیکسوں میں چھوٹ اور کیش سبسڈی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ ان اقدامات کے بہتر نتائج کا اندازہ کھاد کی کھپت اور زرعی پیداوار میں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پچھلے سال جمود کا شکار رہنے والے زرعی شعبے میں موجودہ سال 2016-17 کے دوران 3.46 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔

یہ تمام سکیمیں اور اقدامات آئندہ مالی سال 2017-18 میں بھی جاری رہیں گے۔ یکم جولائی 2017ء سے زرعی ترقیاتی بنک اور نیشنل بنک آف پاکستان نئی سکیم کے تحت 12.5 ایکڑ اراضی رکھنے والے کسانوں کو 9.9 فیصد سالانہ کی کم شرح پر زرعی قرضے دیں گے۔ سکیم کے تحت 50,000 روپے فی کسان قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ 20 لاکھ قرضے زرعی ترقیاتی بنک، نیشنل بنک اور دیگر بنک مہیا کریں گے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان اس نئی سکیم پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔

کسانوںکی سہولت کیلئے مالی سال 2017-18ء میں زرعی قرضوں کا حجم پچھلے سال کے 700 ارب روپے سے بڑھا کر 1,001 ارب روپے کر دیا گیا ہے جو کہ قرضوں کے حجم میں 43 فیصد اضافہ ہے۔ کسانوں کی مزید آسانی کیلئے حکومت نے دستیاب درآمد شدہ یوریا کو 1000 روپے فی بوری کی رعایتی قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈی اے پی پر دی جانے والی سبسڈی کی فراہمی میں آسانی کی خاطر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی اے پی پر فکسڈ سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔

جس کے نتیجے میں جی ایس ٹی 400 روپے سے کم کر کے 100 روپیہ فی بوری کیا جا رہا ہے۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 13.8 ارب روپے بنتا ہے۔ مالی سال 2017-18 میں ٹیکس میں کمی اور سبسڈی کے ذریعے یوریا کی زیادہ سے زیادہ فی بوری قیمت 1400 روپے پر برقرار رکھی جائے گی۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 11.6 ارب روپے بنتا ہے۔ ٹیکسوں میں ردوبدل کے ذریعے این پی، این پی کے، ایس ایس پی اور سی اے این کی قیمتیں بھی اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھی جائیں گی۔

کسانوں کیلئے قرضوں کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کیلئے سٹیٹ بنک ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کے ذریعے بینکنگ سسٹم کو لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ جائیداد گروی رکھنے کی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ خود کارریکارڈز کے ذریعے کسانوں کو بنکوں سے قرض لینے میں سہولت ہوگی۔ حکومت آف پیک آوور میں زرعی ٹیوب ویلوں کو 5.35 روپے فی یونٹ کی قیمت پر سستی بجلی کی فراہمی جاری رکھے گی۔

اس سہولت پر مالی سال 2017-18 میں 27 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ پروڈکشن انڈکس یونٹ کی قدر 4,000 سے بڑھا کر 5,000 روپے کی جا رہی ہے ۔ اس سے کسانوں کو بنکوں سے زیادہ سے زیادہ قرض لینے میں مدد ملے گی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ کسانوں کی سہولت کیلئے نئی زرعی مشینری کی درآمد کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کمبائنڈ ہارویسٹر کی نئی اور پانچ سال تک استعمال شدہ مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔

درآمد شدہ سورج مکھی اور کینولہ کے ہائیبرڈ بیج پر جی ایس ٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ پولٹری کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کیا جا رہا ہے۔ 3 سے 36 ہارس پاور زرعی ڈیزل انجن برائے ٹیوب ویلز جن پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے اس سیلز ٹیکس کوختم کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے برآمدات اورٹیکسٹائل سیکٹر کے حوالے سے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ طویل المدتی مالیاتی سہولت پر شرح سود کو 11.4 فیصد سے 5 فیصد تک کم کیا گیا ہے، ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی گئی ہے، شعبہ ٹیکسٹائل کیلئے بلاتعطل بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

پانچ بڑے برآمدی شعبوں بشمول ٹیکسٹائل، چمڑہ، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی اور قالین بافی کو زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس کی سہولت آئندہ سال بھی جاری رہے گی۔ اسی طرح ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمدگی جاری رکھی جائے گی۔ مالی سال 2016-17 ء کے دوران متعارف کرائے گئے اقدامات آئندہ سال بھی جاری رکھے جائیں گے۔ اس کے علاوہ مشاورت کے بعد کپاس کی قیمت میں استحکام کیلئے کارٹن ہیج ٹریڈنگ کا آغاز کیا جائے گا۔

برانڈ ڈویلپمنٹ فنڈ کا آغاز کیا جائے گا۔ ایک ہزار سلائی مراکز کے قیام کی منظوری کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس اسکیم پر مالی سال 2017-18 میں عملدرآمد شروع کردیا جائے گا اور یہ اسکیم 3 سالوں میں مکمل ہوگی۔ خام کھالوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے صفر فیصد کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ درجے کی چمڑے کی مصنوعات بنانے کے لیے استعمال ہونے والی سٹیمپنگ فوائل پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔

چاول کی برآمد میں سہولت کے لیے پاکستان سے باہر چاولوں کی ویئر ہائوسنگ کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں ہر سال مکانوں کی طلب میں مزید 3 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے رسک شیئرنگ گارنٹی سکیم کا آغاز کیا جائے گا۔ اس سکیم کے تحت گھر بنانے کے لیے 10 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ پر حکومت بینکوں اور DFIs کو 40 فیصد تک کی کریڈٹ گارنٹی دے گی۔

اس مقصد کیلئے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس سہولت کومائیکرو فنانس بینکوں کے ذریعے مہیا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے انفراسٹرکچر کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کو بہت جلد فعال کردیا جائے گا۔ یہ منصوبہ جات کے لیے طویل مدتی قرضے فراہم کرے گا۔

نجی شعبہ کے قابل عمل منصوبوں کو انفراسٹرکچر کی مد میں قرض فراہم کرنے کیلئے پاکستان انفراسٹرکچر بنک بھی قائم کیا جائے گا۔ مالیاتی شعبہ میں اقدامات کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس شعبہ نے حالیہ سالوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مالی سہولیات کی دستیابی کیلئے حکومت مالیاتی شمولیت کی قومی حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں کم آمدنی والے طبقوں کو قرض کی فراہمی کے لیے اسٹیٹ بنک میں 8 ارب روپے سے فنڈ قائم کیا جائے گا۔ موبائل بنکنگ کے ذریعے ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے 2 ارب روپے کی لاگت سے اسٹیٹ بنک میں جدید ای گیٹ وے سسٹم قائم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں برانچ لیس بینکوں سے رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس پر چھوٹ دی جائے گی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ عوام کو قدرتی آفات سے نمٹنے اور اس حوالے سے تیار رہنے میں مدد دینے کے لیے یہ فنڈ قائم کیا گیا۔ اس سلسلے میں 12.58 ارب روپے سے ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کردیا گیا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے قرض دینے میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں 3.5 ارب روپے سے سہولت متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے تحت اسلامی اور روایتی طریقے سے قرض دیئے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جنوبی کوریا کے تعاون سے 6 ارب روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں آئی ٹی سافٹ ویئر پارک قائم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں مالی انتظامات مکمل کے لیے گئے ہیں اور تعمیراتی کام بہت جلد شروع کردیا جائے گا۔ نئی قائم ہونے والی آئی ٹی کمپنیز کو پہلے 3 سال انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔

اسلام آباد اور دیگر وفاقی علاقہ جات سے آئی ٹی سروسز کی برآمد پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ آئی ٹی کمپنیوں/ہاؤسز کو اس شرط پر پاکستان میں فارن ایکسچینج اکائونٹس کھولنے کی اجازت دی جائے گی کہ اپنی آمدن کو بذریعہ ترسیلات ان کھاتوں میں جمع کرواسیں گے۔ یہ اکاؤنٹ بیرون ملک کاروباری ادائیگیوں کے لیے استعمال ہوں گے۔ عام آدمی کی سہولت کے لیے موبائل کال پر ودہولڈنگ ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد اور ایکسائز ڈیوٹی کو 18.5 فیصد سے کم کرکے 17 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جدید/ سمارٹ فونز کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کو 1000 روپے سے کم کرکے 650 روپے کیا جائے گا۔ موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی اخراجات اب مالی سال 2012-13ء کے 324ارب روپے کے مقابلے میں 3 گنا بڑھ چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام 1001 ارب روپے تک بڑھانے کی تجویز ہے جوکہ پچھلے مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے 715 ارب روپے کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔

وفاقی اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حم پچھلے سال کے 1539 ارب روپے (715 ارب روپے وفاقی اور 824 ارب روپے صوبائی) سے بڑھا کر 2113 ارب روپے کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومتی شعبے نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس سے معیشت میں لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے نجی شعبے میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ترقیاتی پروگرام کی توجہ انسانی اور سماجی سرمائے کی ترقی، تعلیم، صحت، خواتین کو بااختیار بنانے، غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عدم مساوات ختم کرنے پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی کمی تیز تر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے انتھک کام کر رہی ہے۔ 2018ء تک انشاء اللہ 10000 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔

اس کے علاوہ 2018ء کے بعد مکمل ہونے والے 15,000میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا فنانشل کلوز ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں حکومت توانائی کے شعبے کی ترقی کیلئے 401 ارب روپے تجویز کر رہی ہے۔ اس میں واپڈا کی 317 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک نیا پروگرام انرجی فار آل متعارف کروایا جا رہا ہے جس کیلئے ابتدائی طو ر پر 12.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے چار سال میں ہماری حکومت کی توجہ مواصلاتی نظام میں سرمایہ کاری پر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے پچھلے سال کے 188 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 320 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ریلوے مسافروں اور سامان کی سستی، تیز رفتار اور آرام دہ ترسیل کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کی ترقی ہماری حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ گزشتہ 4 سالوں کے دوران ریلوے میں متاثر کن تبدیلی لائی جا چکی ہے۔

ہرسال آمدنی بڑھ رہی ہے، مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کیلئے نت نئی خدمات کا اجراء کیا جا رہا ہے اور نئے انجن اور بوگیاں شامل کی جا رہی ہیں۔ حکومت اس قومی اثاثے کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ اگلے مالی سال میں 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہاکہ وژن 2025ء میں انسانی ترقی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، حکومت اس میں سرمایہ کاری کو جاری رکھے گی۔

علاوہ ازیں شعبہ صحت کے متعدد پروگراموں میں سرمایہ کاری کا حجم پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گوادر کی ترقی کو پاک چین اقتصادی راہداری میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سڑکوں کا جال بچھانے اور ایئر پورٹ کی کشادگی اور جدت اور پورے علاقے کی ترقی کیلئے ایک جامع منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں 2017-18ء میں 31 منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔

اسحاق ڈار نے پاکستان دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جون 2014ء میں حکومت نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کاروائی کا فیصلہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ قوم کو فخر ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمن کو شکست فاش دی۔

کوئی مارا گیا، کوئی پکڑا گیا اور کوئی بھاگ گیا۔ یہ فتح ہمارے بہادر فوجیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ آج پوری دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مگر کسی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی جامع فتح حاصل نہیں کی۔ جتنی پاک فوج کو حاصل ہوئی۔ ہمارے جوانوں نے مشکل حالات میں اپنے پیاروں سے دور وقت گزارا‘ شہادت حاصل کی‘ معذور ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہوئی۔

وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے۔ اب وہ کبھی کبھار سرحد پار سے آنکلتے ہیں مگر منہ کی کھاتے ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں اور غیور افسروں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے بہادر سپوتوں کی بے پناہ قربانیوں کے اعتراف کے طور پر میں وزیراعظم کی جانب سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ افواج پاکستان کے تمام افسران اور جوانوں کو تنخواہ کا 10 فیصد ضرب عضب سپیشل الائونس دیا جائے گا۔

یہ الائونس تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے جو اعلان کیا جائے گا اس کے علاوہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے قومی اقدام کے لئے وسیع مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ایک قومی فریضہ ہے جس کیلئے وسائل فراہم کرنا پوری قوم پر لازم ہے۔ وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے اہم بجٹ تخمینہ جات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5,310 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4,013 روپے ہے۔

یاد رہے کہ نظرثانی شدہ ہدف 3,521 ارب روپے تھا۔ کل آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ کیاجا رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 14 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ کل آمدنی میں سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2,384 ارب روپے بنتا ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ ہدف 2,121 ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہے۔ یہ وسائل صوبائی حکومتیں انسانی تر قی اور لوگوں کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کریں گی۔

صوبائی حکومتوں کا حصہ نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کی بقیہ آمدنی 2017-18ء میں 2,926 ارب روپے متوقع ہے جوکہ 2016-17ء میں 2,616 ارب روپے ہے۔ 2017-18ء میں کل اخراجات کا تخمینہ 4,753 ارب روپے ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ اخراجات 4,256 ارب روپے سے 11.7 فیصد زیادہ ہے۔ کل اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ ترقیاتی بجٹ میں کیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ کی مد میں نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پچھلے سال کے 841 ارب روپے کی نسبت اس سال 920 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ آمدنی اور اخراجات کے تخمینوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کے 4.1 فیصد تک آیا ہے۔ گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ خسارے کا تخمینہ 4.2 فیصد ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ٹیکس تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں حکومت نے دوررس انتظامی اصلاحات کا آغاز کیا تاکہ ایک منصفانہ اور فعال ٹیکس نظام وضع کیا جا سکے، وسط مدتی جامع حکمت عملی کے تحت ٹیکس اور شرح نمو کے مابین 15 فیصد کا قابل قدر تناسب حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ امتیازی رعایتوں کا خاتمہ کیلئے ایف بی آر نے ایک تاریخی عمل کا آغاز کیا جس کے تحت گزشتہ تین برسوں میں 300 ارب روپے کی امتیازی رعایتیں واپس لی گئیں اور اسی حوالہ سے مالی سال 2017-18ء میں بھی جن رہنما اصولوں پر ٹیکس اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ان میں گزشتہ برسوں کے دوران تفریقی ٹیکسز کا خاتمہ، ٹیکس ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی اور عدم ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملکی صنعت کا تحفظ، تفریقات کا خاتمہ، منصبی اختیارات میں کمی،ْ کاروبار میں آسانی،ْ شرح نمو اور روزگار میں اضافہ کی ترغیبات اور براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر کے پہلے حصے میں، میں نے ایوان کے سامنے معیشت کے مختلف سیکٹرز سے متعلق ٹیکس میں ریلیف اور شرح نمو میں اضافے کیلئے اقدامات کا ذکر کیا تھا، 2017-18ء میں شامل ٹیکسوں کے حوالہ سے مزید ریلیف میں سب سے پہلے انکم ٹیکس کے ضمن میں دی جانے والی ریلیف میں انکم ٹیکس میں رعایتی اقدامات میں حکومتی پالیسی کے تحت کمپنیاں بنانے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم نے 2013ء سے جب اس ٹیکس کی انتہائی شرح 35 فیصد تھی اس میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کا آغاز کیا تھا۔

ہمارے اس عزم کے تحت یہ شرح اگلے سال یعنی ٹیکس سال 2018ء میں 30 فیصد ہوگی۔ انہوں نے اسلامی بنکاری کی ترغیبات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سفارشات کے مطابق اور اسلامک فنانسنگ کی حوصلہ افزائی کیلئے ہم اسلامک بنکنگ کی مختلف اقسام مثلاً مشارکہ‘ اجارہ اور مرابحہ پر ٹیکسوں کی وہی شرح تجویز کرتے ہیں جو روایتی بنکنگ میں رائج ہے، ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے، 850cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 10,000 روپے سے کم کرکے 7500 روپے‘ 851-1000cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 20,000 روپے سے کم کرکے 15,000 روپے‘ 1001-1300cc والی گاڑیوں میں یہ شرح 30,000 روپے سے 25,000 روپے۔

ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کیلئے ودہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم کی یوتھ لون سکییم کے تحت لی گئی گاڑیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بے روزگار نوجوانوں کو سہولت دینے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی یوتھ لون سکیم کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کو ودہولڈنگ ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔

تعلیمی اخراجات پر رعایت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کم آمدنی والے طبقے جن کے لئے تعلیمی اخراجات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں انہیں رعایت دینے کیلئے 2016-17ء کے بجٹ میں ان افراد کو جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ روپے سے کم تھی انہیں فی بچے کے تعلیمی اخراجات پر 60,000 ہزار روپے کی حد تک ٹیکس میں پانچ فیصد رعایت دی گئی تھی۔ اس سال تجویز کیا جاتا ہے کہ سالانہ آمدنی کی اس حد کو 15 لاکھ تک بڑھا دیا جائے۔

اس اقدام سے متوسط آمدنی والا طبقہ بھی مستفید ہو سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ ٹیکس گزار جن کی آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہے وہ سال گزشتہ کے ادا شدہ ٹیکس کے حساب سے چار اقساط میں ایڈوانس ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ آمدنی کی یہ حد 2010ء میں مقرر کی گئی تھی لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ آمدنی کی اس حد کو پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کردیا جائے تاکہ چھوٹے ٹیکس گزاروں کو سہولت مل سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ہصنعتوں کو فروغ دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس کی چھوٹ سرٹیفکیٹ کے تحت درآمد کئے جانے والے خام مال کی حد جو پچھلے برس کی درآمد شدہ مقدار کا 110 فیصد ہے‘ اسے بڑھا کر 125 فیصد کردیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ 2016-17ء کے بجٹ میں دواساز صنعتوں کے فروخت کے اخراجات کی حد فروخت کے حجم کے 5 فیصد تک مقرر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس صنعت کے فروغ میں مشکلات کا سامنا تھا۔

لہذا تجویز ہے کہ اگلے سال یہ حد بڑھا کر 10 فیصد کردی جائے۔ روزمرہ اشیاء استعمال پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ چونکہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے تقسیم کنندگان کے منافع کی شرح کم ہے لہذا دفعہ 113 کے تحت ان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرح 0.2 فیصد مقرر کی گئی ہے تاہم ان تقسیم کنندگان کو مال کی فراہمی پر عمومی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے جوکہ گزشتہ سال 4 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد اور عام کمپنیوں کیلئے 4.5 فیصد سے کم کرکے 3.5 فیصد کیا گیا تھا۔

یہ شرح اب بھی تقسیم کنندگان کے لئے زیادہ تصور کی جاتی ہے چنانچہ تجویز ہے کہ اس شرح کو 3.5 فیصد سے مزید کم کرکے 2.5 فیصد کیا جائے تاہم گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے ان شرحوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ودہولڈنگ ایجنٹس کے مطالبہ پر تجویز کیا جاتا ہے کہ انہیں ودہولڈنگ ٹیکس سٹیٹمنٹس میں غلطیوں کی تصحیح کیلئے 60 دن میں نظرثانی کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ قوانین کے مطابق ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویژنل اسسمنٹ آرڈر کے اجراء کے 45 دن کے اندر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ انہیں اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ عوام کے مطالبہ اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے موجودہ طریقہ کار کے خاتمے کی تجویز ہے، گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں پرویژنل اسسمنٹ آرڈر کے بجائے قابل اپیل آرڈر جاری کیا جاسکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2016-17ء میں کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20 فیصد کی چھوٹ کو ایس ای سی پی نے سراہا اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کیلئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے لہذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں سٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں انہیں پہلے دو سال 20 فیصد جبکہ آخری تین سال میں 10 فیصد کی چھوٹ دی جائے۔ وزیر خزانہ نے انشورنس پریمیئم پر چھوٹ کی انتہائی حد میں اضافہ کے حوالہ سے بتایا کہ ٹیکس کے حجم میں اضافہ اور قوانین کی پاسداریی کی ترغیب دینے کیلئے پچھلے سال گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لائف انشورنس پریمیئم پر ایک فیصد ایڈجسٹمنٹ ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کرایا گیا تھا جہاں یہ پریمیئم 2 لاکھ روپے یا اس سے زائد تھا۔

انشورنس سیکٹڑ کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ پریمیئم کی یہ حد بڑھا کر 3 لاکھ روپے کردی جائے تاہم گوشوارے داخل کرنے والوں کیلئے اس ٹیکس سے استثنیٰ جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گلاب دیوی ہسپتال،غربت کے خاتمہ کے پروگرام برائے پاکستان اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس غیر منافع بخش خیراتی اور سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

لہٰذا تجویز ہے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس2001ء کے دوسرے شیڈول کی شق (66) میں شامل کرکے ان کی آمدنی کو استثنیٰ دیا جائے۔ وزیر خزانہ نے ریونیو اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ تجویز ہے کہ ڈیویڈنٹ پر ٹیکس کی یکساں شرح کو 12.5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے۔ اسی طرح میوچل فنڈ کے ڈیویڈنٹ پر ٹیکسوں کی حالیہ شرح 10 فیصد سی12.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاہم کچھ مخصوص اقسام کی ڈیویڈنٹ پر کم شرحوں کے حساب سے ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت منافع سے حاصل شدہ آمدنی پر مرحلہ وار شرح حساب سے ٹیکس عائد ہے جو کہ 25 ملین روپے تک ،25 سی50 ملین روپے تک اور 50 ملین روپے سے زائد آمدنی پر بالترتیب10 فیصد، 12.5 فیصد اور 15 فیصد ہے۔ اس آمدنی کی موجودہ حدوں کو بالترتیب5 ملین سی25 ملین سے زائد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے ٹیکس کا نفاذ زیادہ مرحلہ وار اور برابری کی بنیاد پر ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت سیکیورٹیز پر تین درجوں کے اعتبار سے نافذ کیپٹل گین ٹیکس کو یکساں شرح سے نافذ کئے جانے کی تجویز ہے اور فائلر کیلئے یہ شرح 15 فیصد جبکہ نان فائلر کیلئی20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح طویل مدت تک سیکیورٹیز کو روکے رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اسٹاک ایکسچینج میں خرید وفروخت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان صنعت کاروں کو جو اپنی 90 فیصد فروخت سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کو کرتے ہیں اپنے کابل ادائیگی ٹیکس میں سے 3 فیصد کا ٹیکس کریڈٹ حاصل ہے چونکہ اس اقدام سے سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کے فروغ کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے بلکہ اس ٹیکس کو ایک کٹوتی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے لہٰذا تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹیکس کریڈٹ کو ختم کردیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ 2015-16ء کے بجٹ میں متمول طبقے بشمول افراد ایسوسی ایشنوں اور کمپنیوں کی آمدنی جو کہ 5 سو ملین روپے سے زائد تھی، پر بالترتیب 4 فیصد برائے بینکنگ کمپنیز اور 3 فیصد باقی تمام سپر ٹیکس نافذ تھا۔ یہ ٹیکس 2016-17ء میں مزید ایک سال کیلئے بڑھا دیا گیا چونکہ وہ اسباب جن کی بنا پر یہ ٹیکس نافذ کیا گیا بدستور موجود ہیں لہٰذا تجویز ہے کہ اگلے سال بھی سپر ٹیکس کو جاری رکھا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی کوشش رہی ہے کہ چھوٹے شیئر ہولڈرز کو اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی ہو چنانچہ 2015-16ء کے بجٹ میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اگر پبلک کمپنی نے منافع کے حصول کے بعد سرمایہ کاروں میں 6 ماہ تک منافع تقسیم نہیں کیا یا منافع تقسیم کرنے کے بعد بھی سال کے آخر تک کمپنی کے ذخائر اس کے پیڈ اپ کیپٹل کے 100 فیصد سے زائد ہوں تو اس اضافی رقم پر 10 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کیا جائے گا، فی الوقت غیر منقسم ذخائر پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے۔

ایس ای سی پی کی سفارشات پر پیڈ اپ کیپٹل کی یہ شرح ختم کرنے کی تجویز ہے۔مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر منافع تقسیم نہیں کیا جاتا تو اس کمپنی کے ذخائر کی بجائے اس کے سالانہ منافع پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ کم سے کم ٹیکس کی اس شرح کو ایک فیصد سے بڑھا کر 1.25 فیصد کر دیا جائے اس اقدام سے قانون کی پاسداری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کیونکہ ان کی شرح 31 فیصد سے کم ہوکر 30 فیصد ہو جائے گی اور ایسے ادارے جو اصل منافع ظاہر نہیں کرتے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی اور نان ڈیوٹی پیڈ سیگریٹ کی پیداوار اور فروخت کے خطرناک حد تک پھیلائو نے ایک طرف فروخت سے حاصل شدہ رقم کو کم کردیا ہے دوسری جانب صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے کیونکہ غیر ریگولیٹ پیداوار میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ غیر قانونی پیداوار اور تقسیم کو روکا جاسکے۔

تمباکو کی فروخت کو دستاویزی نظام کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اور تمام متعلقہ افراد اور ان کی پیداوارسے متعلق معلومات کے حصول کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ یا اس کے ٹھیکیدار ٹوبیکو سس کی وصولی کے وقت 5 فیصدکی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کی سفارش پر فکسڈ فی یونٹ کے حساب سے جو فائنل ٹیکس پچھلے بجٹ میں عائد کیا گیا تھا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے لہٰذا اسے واپس لینے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ فی الوقت الیکٹرونک اشیاء کے ڈیلر ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز اشیاء کی فروخت پر ریٹیلرز سے 0.5 فیصد کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتے ہیں الیکٹرانک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر یہ شرح ایک فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے ٹیکس گزاروں کے مطالبے پر نان فائلرز سے زیادہ شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی پالیسی متعارف کرائی تھی تاکہ ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکے اس پالیسی کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ25 ہزار ہوگئی ہے اس پالیسی کو جاری رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی غرض سے نان فائلرز پر ٹھیکوں، فروخت اور خدمات غیر مقیم افراد کو ادائیگی کرائے سے آمدنی پرائز بانڈ اور لاٹری کے انعامات کمیشن، نیلامی، سی این جی اسٹیشن کے گیس بل کی وصولی صنعت کاروں اور درآمد کنندہ گان کی ڈسٹری بیوٹرز ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے تاہم فائلرز کیلئے موجودہ شرحیں بغیر کسی اضافے کے برقرار رہیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت اگر غیر منافع بخش ادارے اپنی آمدنی کا 75 فیصد سے زائد خیراتی اور سماجی سرگرمیوں میں خرچ نہیں کرتے تو ان کا این پی او کا مرتبہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کی کل آمدنی 30 فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ ہوتا ہے اس مشکل کو ختم کرنے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنی آمدنی کا75 فیصد سے زائد صرف نہ کر سکیں تو ایسی غیر استعمال شدہ رقم پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے اور ان کا این پی او کا مرتبہ بحال رہے۔

مزید یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے اداروں کے انتظامی اخراجات پر 15 فیصد کی حد مقرر کی جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالہ سے ریلیف اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز قوانین کے حوالے سے موجودہ بجٹ میں اقدامات تجویز کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ لبریکیٹنگ آئل پر عائد 2 فیصد اضافی ٹیکس کے خاتمہ کی تجویز ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کم توانائی پر چلنے والی موٹر گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے درآمد کے وقت ان پر عائد سیلز ٹیکس کی کم شرح کو ان گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر بھی مہیا کرنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس گزاروں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے تجویز ہے کہ اگر ٹیکس گزار سیلز ٹیکس کی ریکوری کے حوالے سے اصل رقم کا 25 فیصد پیشگی جمع کرا دیں تو انہیں کمشنر اپیل کے فیصلے تک مطلوبہ رقم کی ریکوری پر خود بخود حکم امتناعی مل جائے۔

یہ سہولت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے بھی دی جائے گی۔ مخصوص پریمکسز پر عائد سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ سٹنٹنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے۔ اس حوالے سے چھٹے شیڈول میں پہلے سے موجود عمومی چھوٹ کا دائرہ کار مزید بڑھانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تجویز ہے کہ رجسٹرڈ افراد کی جانب سے دیگر افراد کو اشیاء کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ختم کر دی جائے تاہم سرکاری اداروں کو فراہم کردہ اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ برقرار رہے گی، پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی 7 مختلف قسم کی مشینریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

اس اقدام سے اس سیکٹر میں سمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ صوبوں کی جانب سے بعض خدمات پر ان پٹ ایڈجسٹمنٹ کے بغیر سیلز ٹیکس کی کم شرحوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔ توازن اور سہولت کی غرض سے سیلز ٹیکس کی ان کم شرحوں کو اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کی حدود میں بھی لاگو کرنے کی تجویز ہے۔ ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کرتے ہوئے اسے 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ایک روپیہ فی کلو گرام سے 1.25 روپے فی کلو گرام کے اضافے کی تجویز ہے۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے سیمنٹ کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور انڈسٹری اس معمولی اضافے کو بآسانی برداشت کر پائے گی۔ پچھلے سال کے بجٹ میں پانچ بڑے برآمدی سیکٹرز کو زیرو سیل پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اب ان سیکٹرز کے ریٹیلرز سے مشاورت کے بعد اس شرح کو 6 فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔

کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکسصفر فیصد ہے جس کو بڑھا کر 6 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ کپڑے کے مقامی صنعتکاروں کو صحت مند مسابقت کی فضا میسر ہو سکے۔ اس سیکٹر سے ڈیوٹی کی وصولی بڑھانے اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے سگریٹ کے دو موجودہ درجات پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے۔ مزید برآں اس سیکٹر کی ڈاکومنٹیشن اور سمگلنگ اور غیر معیاری سگریٹوں کی روک تھام کیلئے ایک نیا درجہ متعارف کرانے کی تجویز ہے۔

سٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح کو ریشنلائز کرنے کیلئے بجلی پر 9 روپے فی یونٹ کی موجودہ شرح کو بڑھا کر 10.5 روپے کیا جا رہا ہے اور اسی لحاظ سے شپ بریکنگ اور متعلقہ صنعتوں میں اضافہ متعارف کیا جائے گا۔ اس شعبے میں کاروبار کو آسان بنانے کیلئے سٹیل کی صنعت کے مسائل کو مشاورت سے حل کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایچ ایس سسٹم ایک اہم کنونشن ہے جس کی بدولت عالمی سرحدوں کے مابین اشیاء کی خرید و فروخت بغیر کسی مشکل کے ہو رہی ہے۔

ہر پانچ سال بعد ڈبلیو سی او اس کنونشن کا جائزہ لیتا اور تجدید کرتا ہے۔ ڈبلیو سی او نے نئے ایچ ایس ورژن کا یکم جنوری 2017ء سے نفاذ کر دیا ہے۔ پاکستان ایچ ایس کنونشن کا حصہ ہونے کے ناطے اس نئے ورژن کو نئے مالی سال یعنی یکم جولائی 2017ء سے اختیار کرنے کا پابند ہے۔ ایچ ایس 2017ء کی ترامیم سے دنیا بھر میں خرید

متعلقہ عنوان :