وفاقی حکومت کا پیش کردہ بجٹ ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ کے مصداق ہے، سینیٹر سراج الحق

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ڈکٹیشن پربننے والے بجٹ نے حسبِ سابق عوام کو مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ہے، حکومت نے ایک بار پھر انتظامی بجٹ پیش کرکے ثابت کردیا اُسے عوام کے فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں، امیر جماعت اسلامی

جمعہ 26 مئی 2017 21:57

وفاقی حکومت کا پیش کردہ بجٹ ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ کے مصداق ہے، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مئی2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2017-18 ء کے لیے جو بجٹ پیش کیا ہے، وہ ’’نئی بوتل میں پرانی شراب‘‘ کے مصداق ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ڈکٹیشن پربننے والے بجٹ نے حسبِ سابق عوام کو مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ حکومت نے ایک بار پھر انتظامی بجٹ پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اُسے عوام کے فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں۔

ملکی معیشت قرضوں کے سہارے کھڑی ہے، جبکہ حکومت معاشی ترقی کے راگ اِلاپتے نہیں تھکتی۔ مجموعی قومی پیداوار کا 60 فیصد یا اس سے بھی زیادہ قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے، جبکہ انفراسٹرکچر اور سماجی شعبے (یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ) کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ سے زیادہ کامقروض ہے۔ قرضوں میں مسلسل اضافے کی بنیادی وجہ حکومت کی آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ ہے۔ آمدنی کے مقابلے میں اخراجات تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے زیادہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہونے کی وجہ سے موجودہ مالی سال کے پہلے 10ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 7.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

ان تجارتی خساروں اور بجٹ خساروں کو پوراکرنے کے لیے حکومت قرضوں کا سہارا لیتی ہے اور پھر قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے ہماری کل سالانہ اخراجات کا تقریباً 47فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم میں بھی 3فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں ماسوائے سی پیک کے کوئی قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت معاشی بحران سے نکلنا چاہتی ہے تو اُسے اپنے برآمدات میں اضافے کیساتھ ساتھ، ملک کے اندر ٹیکس کے نظام میں بہتری لانا ہوگی۔دنیا بھر میں اس حقیقت کو تسلیم کیاجاتاہے کہ بلاواسطہ ٹیکس کے ذریعے خوشحال طبقے سے وسائل کو کم ترقی یافتہ علاقوں اور کم آمدنی والے لوگوں کی طرف موڑا جاسکتاہے۔ لیکن یہاں بلاواسطہ ٹیکس (یعنی انکم ٹیکس ) بھی وو ہولڈنگ ٹیکس (بالواسطہ )کے ذریعے جمع کیاجاتاہے۔

جس کا حجم بلاواسطہ ٹیکس کے ذریعے جمع ہونے والی رقم کے 66فیصد سے بھی زیادہ ہے۔عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباً 57 لاکھ افراد قابل ٹیکس آمدنی کے حامل ہیں، جبکہ اس وقت ملک میں صرف 10 لاکھ کے قریب افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا عوام پر بالواسطہ ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے اور بڑے بڑے صنعت کاروں، جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کم از کم 30 لاکھ کے قریب نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔

نیز ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے قومی اداروں کی کارکردگی بڑھاکر کرپشن کا خاتمہ کرکے پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے عظیم قومی اداروں کو بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ایک طرف خوشحال لوگوں کا بہت بڑا طبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے، جبکہ دوسری طرف تقریباً 60ملین افراد سے زیادہ موبائل فون رکھنے والے پاکستانی 14فیصدایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ اُن کی خالص آمدنی 4لاکھ روپے سالانہ ہے یانہیں۔اسی طرح سے وہ 19.5فیصد سیلز ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اندازاً 18لاکھ افراد سالانہ بکثرت بین الاقوامی سفر کرتے ہیں، 7لاکھ کے قریب پاکستانیوں کے پاس ایک سے زیادہ بینک اکائونٹس ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی پوش علاقوں میں رہتے ہیں،80ہزار سے زیادہ لگژری گاڑیاں رکھتے ہیں،90ہزار سے زیادہ افراد بھاری یوٹیلٹی بلز ادا کرتے ہیں ، 2لاکھ سے زیادہ پروفیشنلز (انجینئرز،ڈاکٹرز ، وکلاء اور چارٹرڈ اکائونٹنٹس )وغیرہ ہیں۔

لیکن ان میں سے اکثریت ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرتے ۔ان تلخ حقائق کے باوجود حکمران جماعت اپنے دور اقتدار کے پانچویں بجٹ میں الیکشن کے پیش نظر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کو ایک کھرب روپے سے زیادہ تک لے جاکر حلقہ جاتی ترقیاتی پروگراموں کے لیے اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز کو 50ملین روپے فی کس دینے کا پروگرام رکھتی ہے تاکہ وہ الیکشن اخراجات آسانی سے پورے کرسکیں۔

اس سے ملکی قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل سیکٹر (بالخصوص تعلیم اور صحت ) پر اسی خطے میں واقع دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم وسائل خرچ کیے جارہے ہیں۔ تعلیم کے شعبہ پر مالی سال 2011ء سے مالی سال 2015ء تک جی ڈی پی کا صرف 1.8فیصد سے 2.2فیصد خرچ کیاگیا۔جبکہ صحت پر جی ڈی پی کا 2فیصد سے بھی کم خرچ کیاجارہاہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں موٹرویز ،بڑی شاہرائوں ،انڈرپاسز ،میٹرو بس ،اورنج ٹرین وغیرہ پر بے پناہ وسائل خرچ کیے گئے لیکن تعلیم اور صحت کے شعبے حکومتی زبانی دعوئوں کے باوجود عملی طور پر ان کی ترجیحات میں شامل نہ ہوسکے۔

علاقائی حوالے سے حکومتی ترجیحات بہت زیادہ ناانصافی پر مبنی ہیں۔ ناانصافی پر مبنی انہی پالیسیوں نے آمدنی کی تقسیم نے علاقائی سطح پر وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کو فروغ دیا ہے۔ ملک کی 70فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں اس کاحصہ 21فیصد سے زیادہ ہے۔ کل لیبر فورس کا 44فیصد اس شعبہ میں کھپاہواہے۔

مجموعی برآمدات میں 66فیصد حصہ زراعت کاہے۔ ان بنیادی حقائق کے باوجود زراعت کاشعبہ 1947ء سے لے کر آج تک کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر حکومت حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے اپنے اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ اور بجلی اورگیس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کرکے پیداواری لاگت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

بیرون ملک مناسب منڈیوں کی تلاش کرکے وہاں کی مانگ کے مطابق مال تیار کرکے برآمد کیا جائے تو ملکی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی اشیاء پر انحصار کی بجائے جدت پسندی اختیار کرکے بیرون ملک خریداروں کی پسند کے مطابق اشیاء تیار کروائی جائیں ۔ اسی طرح سے پھلوں آم ،کینوں ،امروداور سبزیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنا کر برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کیاجاسکتاہے۔ قرضوں کی بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرکے انہیں بروئے کار لایاجائے۔ نیز غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔