تعلیمی ادارے فرقہ واریت ، عدم برداشت کے مراکز بن رہے ہیں ، رضا ربانی

طلباء سے فکری آزادی اور سوال کرنے کی صلاحیت چھین لینے سے معاشرے کے گھٹن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے، چیئرمین سینٹ ملک میں پاکستان کے آئین کی عزت اور توقیر کی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ادارے مضبوط نہ ہوتے ،منظم نظام وجود نہ پاتا اور قانون کی بالادستی نہ ہوتی،’ پاکستان عصر حاضر میں‘‘ کے موضوع پر خصوصی گفتگو

جمعرات 25 مئی 2017 20:14

تعلیمی ادارے فرقہ واریت ، عدم برداشت کے مراکز بن رہے ہیں ، رضا ربانی
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 مئی2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ ملک کے تعلیمی ادارے فرقہ واریت اور عدم برداشت کے مراکز بنتے جا رہے ہیں ، طلباء سے فکری آزادی اور سوال کرنے کی صلاحیت چھین لینے سے معاشرے کے گھٹن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قوم کو تدبر اور سیاسی بصیرت کے ساتھ صف بندی کرنا ہوگی اور اس حوالے سے نوجوان نسل اور تعلیمی اداروں کو سرگرم کردار اد ا کرنا ہوگا،پارلیمنٹ عدم برداشت کے اس کلچر کے خاتمے کیلئے نوجوان نسل کی مثبت سوچ کی جانب دیکھ رہی ہے جس کی درست سمت متعین کرنا تعلیمی اداروں اور قوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقراء یونیورسٹی کے زیر اہتمام’’ پاکستان عصر حاضر میں‘‘ کے موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کیلئے قانون کا اطلاق الگ الگ ہوتا ہے۔ اور طاقتور اپنے لئے انصاف خرید سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں پاکستان کے آئین کی عزت اور توقیر کی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ادارے مضبوط نہ ہوتے ،منظم نظام وجود نہ پاتا اور قانون کی بالادستی نہ ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ غریب انصاف کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے اور اسے انصاف نہیں ملتاہے چیرمین سینٹ نے کہا کہ ہم ایک عدم برداشت کا شکار معاشرہ بنتے جارہے ہیںہمارے معاشرے میں پہلے جنگجو نہیں تھے جن کا رواج افریقی معاشرے میں تھا مگر اب مختلف طبقاتی جنگجو معاشرے کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیںجن میں کچھ جنگجو مذہب ، کچھ فرقہ واریت اورکچھ جاگیرداری کے نام پر موجود ہیں اور اب ایک نئے رجحان کے تحت عوامی ہجوم کے ذریعے لوگوں کو مارنے کا نیا جنگجو طبقہ وجود پا رہا ہے انہوںنے کہاکہ اگر یہ سب کچھ کراچی ، اسلام آباد اور لاہور کی سٹرکوں پر ہورہا ہوتا تو میرے لئے باعث تشویش نہیں تھا مگر یہ عدم برداشت اور تشدد یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں سرایت کر رہا ہے یہ عدم برداشت اور فرقہ واریت ہمارے معاشرے میں اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ تعلیمی ادارے مراکز بنتے جارہے ہیں انتہا پسندی کے شہد مکھیوں کے چھتوں کی طرح پھیلنے سے تشویش بڑھ رہی ہے ، اس انتہا پسندی کا موجب نوجوان نسل نہیں بلکہ گزشتہ دو نسلیں ہیں۔

جس دوران قائد اعظم کے ترقی پسند، مذہبی ، رواداری اور فلاحی ریاست کے تصور پاکستان کو تبدیل کر دیااور ایک ایسی نسل پیدا کی گئی جو سوالات کرنے سے عاری تھی انہوں نے کہاکہ ضیاء کے دور میں طلباء تنظیموں ، ٹریڈ یونیز اور پاک ٹی ہاؤس کلچر پر پابندی اس وجہ سے لگائی گئی کہ ریاست سمجھتی تھی کہ ان طبقات کی ترقی پسندانہ سوچ جنرل ایوب خان کے حکومت کے خاتمے کا باعث بنی ان تحریکوں سے اگر حبیب جالب ، فیض اور جون ایلیاء کی سوچ کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتامگر یہ نہیں سوچا گیا کہ اگر فکری آزادی اور سوال کرنے کی صلاحیت چھین لی گئی تو معاشرے میں مثبت سوچ کہاں سے پیدا ہوگی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ان حالات کے تناظر میں ر یاست نے خود دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ ختم کر دیا اور اب بھی یہ بیانیہ کسی وزارت میں ترتیب نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے تعلیمی اداروں اور پارلیمنٹ کو مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا انہوںنے کہاکہ ایک عرصے تک وفاق نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر ناجائز قبضہ کیے رکھا تاکہ اپنی مرضی کا سلیبس اور تعلیمی نظام مسلط کیا جا سکے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس میں کیا حرج ہے کہ انگریز سامراج کے خلاف برسرپیکار بھگت سنگھ کی تاریخ پڑھائی جائے ریاست کو احساس کرنا چاہے ہمار اکلچر انڈس ویلی کا کلچر ہے جس کی جڑیں ملک کے طول و عرض کے مختلف حصوں میں پھیلی ہیں اس لئے ہم پر عرب کلچر کو نہ تھوپا جائے کیونکہ اگر ہم اپنی جڑوں اور بنیادوں سے الگ ہو گئے تو بھٹک جائیں گے انہوں نے کہاکہ ان تمام عوامل کے تدارک کیلئے ہم نوجوان نسل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا لیکن حقائق سامنے رکھنے چاہیں۔اس صورتحال میں دیگر معاملات ضمنی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور سب سے اہم کام معاشرے کو بچا نا ہے ، جسے انتہا پسندی اور مایوسی کسی اور جانب لے کر جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ابلاغ کے تمام ذرائع بند کر دیئے گئے تو زیادہ مشکلات پید اہو جائیں گی۔ اور سوشل میڈیا پر ریاستی دباؤ پر پابندی لگی تو معاشرے میں بے چینی اور بڑھے گی انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ترقی کے حوالے سے بھر پور استعداد موجود ہے لیکن اس کیلئے ہمیں معاشرے کو اپنے آباؤ اجداد کے خیالات اور مقامی کلچر کے مطابق آگے لے کر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔اعجاز خان

متعلقہ عنوان :