ملکی تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا ،ْ ا قتصادی سروے رپورٹ جاری

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی ،ْزراعت اور توانائی کے شعبے میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ بینکاری کے شعبہ میں 16.2 فیصد اور تجارت کے شعبہ میں رواں سال 6.82 فیصد اضافہ ہوا ،ْ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد ،ْ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی ،ْاسحاق ڈار عالمی بینک آئندہ سال پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائیگا ،ْدہشتگردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کو ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ،ْرواں برس بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں گے ،ْرواں مالی سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے ،ْ آپریشن ضرب عضب میں مسلح افواج کی خدمات قابل تعریف ہیں ،ْنائن الیون کے بعد ایک فون کال پر لوگ بچھ گئے تھے ،ْ ہم نے دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ،ْوفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 25 مئی 2017 17:55

ملکی تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2017ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی کے حوالے سے اقتصادی سروے 2016-17ء جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا ہے ،ْ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی ،ْزراعت اور توانائی کے شعبے میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ،ْ بینکاری کے شعبہ میں 16.2 فیصد اور تجارت کے شعبہ میں رواں سال 6.82 فیصد اضافہ ہوا ہے ،ْ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی ،ْآئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی ،ْعالمی بینک آئندہ سال پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائیگا ،ْدہشتگردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کو ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ،ْرواں برس بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں گے ،ْرواں مالی سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے ،ْ آپریشن ضرب عضب میں مسلح افواج کی خدمات قابل تعریف ہیں ،ْنائن الیون کے بعد ایک فون کال پر لوگ بچھ گئے تھے ،ْ ہم نے دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔

(جاری ہے)

وزیر خزانہ نے جمعرات کو پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی کارکردگی جائزہ رپورٹ برائے مالی سال 2016-17ء جاری کی۔ اقتصادی سروے کے نمایاں خدوخال اور حکومت کی معاشی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جا رہا ہے ،ْملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ،ْ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کی شرح نمو گزشتہ 10 سال کی بلند ترین سطح پر 5.28 فیصد رہی ہے۔

اگلے سال کیلئے شرح نمو کا ہدف 6 فیصد سے زائد رکھا گیا ہے۔ 2013ء میں معاشی شرح نمو تین فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کی شرح 5 فیصد سے اوپر رہی، صنعتی ترقی کی شرح مارچ 2017ء سے 10 فیصد زائد رہی۔معیشت کی کار کر دگی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں انڈسٹری کا حصہ 21 فیصد، زراعت 20 اور سروسز (خدمات) کا حصہ تقریباً 60 فیصد رہا۔

رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبے کی شرح نمو 5.02 فیصد رہی جبکہ زراعت کی 3.46 اور سروسز کی شرح نمو 5.98 رہی جو گزشتہ تین برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پر آئی ہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے جائزوں کے مطابق پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اب بھی کم ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ توانائی کی پیداوار میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا جبکہ انھوں نے بتایا کہ ترقی کی شرح 5 فیصد سے بڑھ گئی ہے اور ہم نے 10 سال بعد یہ ترقی حاصل کی ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔اسحق ڈار نے کہاکہ ہم نے یوریا کھاد کی قیمت کم کی اور فی بوری قیمت 1400 روپے پر لے گئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زرعی ترقی کی شرح میں وزیراعظم کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران تعمیراتی شعبے میں 9.05 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ یہ 13-2012 میں 1.08 فیصد، 14-2013 میں 5.96 فیصد، 15-2014 میں 7.26 اور 16-2015 میں 14.60 فیصد تھا۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران زراعت کے شعبے میں 3.46 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی اہم زرعی اجناس جن میں گندم،چاول، گنا اور مکئی شامل ہیں، ان کی پیداوار میں 4.12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 25.75 ملین ٹن رہی جبکہ کپاس کی پیداوار 10.7 ملین بیلز رہی حالانکہ پاکستان کی اپنی ضرورت 14 ملین بیلز ہے۔گزشتہ برس گنے کی پیداوار 65.48 ملین ٹن تھی جو رواں برس 73.61 ملین ٹن رہی۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال 473 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے جبکہ سال کے اختتام تک زرعی قرضوں کا 700 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ خسارہ 3.8 فیصد تک رکھنے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جو 3.7 فیصد رہا۔انہوں نے بتایا کہ حکومت تجارتی خسارے کو 20.4 ارب روپے کی حد پر روکنے میں ناکام رہی اور اقتصادی جائزے میں شامل عرصے کے دوران تجارتی خسارہ 24 ارب روپے رہا۔اسحق ڈار نے کہاکہ رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح 6 فیصد رہنے کی توقع تھی تاہم یہ 4.9 فیصد رہی۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7.25 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جبکہ سال کے اختتام تک یہ جی ڈی پی کے 2.7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔وزیر خزانہ نے بتایاکہ رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر 19.5 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچنے کی توقع ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

اسحق ڈار نے بتایا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔انھوں نے بتایا کہ عالمی بینک آئندہ سال پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائے گا۔اسحق ڈار نے کہاکہ سالانہ فی کس آمدنی گزشتہ مالی سال 1333 ڈالر تھی جبکہ رواں مالی سال یہ 1629 ڈالر رہی۔انہوں نے کہا کہ رواں برس فی کس آمدنی میں 22 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس ریونیو رواں برس 13.1 فیصد رہا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2013 میں ملکی قرضے 14318 ارب روپے تھے جبکہ مارچ 2017 تک ملکی قرضے 20872 ارب روپے ہوگئے۔اسحاق ڈار نے کہاکہ رواں مالی سال کے دوران بھی ملکی برآمدات اور درآمدات کے درمیان عدم توازن برقرار رہا اور جولائی 2016 تا اپریل 2016 کے دوران ملکی درآمدات کا حجم 45.48 ارب ڈالر ،ْ برآمدات کا حجم 21.75 ارب ڈالر رہا۔برآمداتی حجم میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ چونکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لہٰذا ان اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے جو پاکستان برآمد کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کی نظریں آئی ٹی ایکسپورٹس پر ہیں اور اس مقصد کیلئے ہم نے کوریا کے اشتراک سے اسلام آباد میں آئی ٹی پارک کا اعلان کیا ہے جبکہ کراچی اور لاہور میں بھی یہ ماڈل اپنایا جائیگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہوا، جس میں مسلح افواج کی خدمات قابل تعریف ہیںانھوں نے بتایا کہ اس سال بھی مسلح افواج کیلئے 90 سے 100 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جس میں متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو وغیرہ بھی شامل ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ہماری افرادی قوت چین سے سستی ہے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ نہ کر سکے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 25 ہزار لوگ شہید اور 25 ہزار افراد زخمی ہوئے، اس جنگ سے پاکستان کو ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے،اس جنگ سے ہمیں اب تک ملکی معیشت کو 123ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، دہشت گردی کے اخراجات اپنے بجٹ سے ادا کررہے ہیں کسی غیر ملکی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہے، رواں برس بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں گے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، معاشی اہداف پورا نہ ہونے کی ہیڈ لائن لگانا آسان ہے تاہم موجودہ حکومت مشکل معاشی اہداف کے حصول پر یقین رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رکھنے سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔