صوبائی حکومت کا مالی اختتام کے قریب ،محکمہ صحت اور تعلیم کے متعدد منصوبے تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکے

واں مالی سال میں بھی محکمہ تعلیم کے منصوبے نامکمل رہے،کراچی تا کشمور 900سے زائد سکولز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں حکومت کی جانب سے فریال تالپور کارڈیک سرجری کمپلیکس کے فنڈز ہی جاری نہیں ہوئے ،بینظیر یورولوجی انسٹیٹیوٹ نوابشاہ منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوسکا

جمعرات 25 مئی 2017 17:21

صوبائی حکومت کا مالی اختتام کے قریب ،محکمہ صحت اور تعلیم کے متعدد منصوبے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2017ء) حکومت سندھ کا ایک اور مالی سال اپنے اختتام کے قریب پہنچ گیا تاہم صوبائی حکومت صوبے میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بجٹ ترجیحات پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت کا ایک اور مالی سال اپنے اختتام کے قریب ہے لیکن صوبائی حکومت کے صحت اور تعلیم کے شعبوں کے بڑے منصوبے تاحال مکمل نہیں ہوسکے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے فریال تالپور کارڈیک سرجری کمپلیکس کے فنڈز ہی جاری نہیں ہوئے جبکہ بے نظیر یورولوجی انسٹی ٹیوٹ نوابشاہ منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔کراچی کے 5اضلاع میں انڈواسکوپی مائکرو اسکوپک مشین کی تنصیب نہیں کی جاسکی ۔لیاقت یونیورسٹی اسپتال حیداآباد میں برنس وارڈ منصوبہ فنڈز کا منتظر ہے ۔

(جاری ہے)

سندھ کے 5ٹیچنگ اسپتالوں میں فزیوتھراپی ڈپارٹمنٹس کے لیے مختص 50ملین روپے جاری ہی نہیں ہوئے جبکہ گلشن اقبال کراچی اسپتال منصوبہ چار سال بعد بھی نامکمل ہے ۔

اسی طرح ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کراچی کے لیے 33ملین روپے جاری نہیں کیے گئے ۔کارڈیک ایمرجنسی سینٹر بلدیہ ٹاؤن کراچی 2010سے تاحال نامکمل ہے ۔200بستروں کے بے نظیر بھٹو اسپتال سائٹ کا منصوبہ بھی رواں مالی سال میں بھی ادھورارہا ۔سعودآد کراچی ٹراما یونٹ،گلستان جوہر اسپتال ، میٹرنٹی ہوم،اورنگی،ملیر،کیماڑی اربن ہیلتھ سینٹرز سے مسیحائی شروع نہیں ہوسکی ہے ۔

50بستروں کے ایف بی ایریا اسپتال کے لیے بھی سندھ سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔بے نظیر بھٹو میڈیکل کمپلیکس بن قاسم منصوبے کی تکمیل 2012سے نہیں ہوسکی۔پی آئی بی میں 10بستروں کے اسپتال کے لیے سندھ حکومت نے فنڈز جاری نہیں کیے ۔جبکہ سینٹرل بلڈ بینک منصوبے پر پیشرفت نہ ہوسکی ہے ۔نیو کراچی ٹراما سینٹر کے لیے مختص 24ملین روپے جاری نہیں ہوئے۔گلشن ضیا اورنگی ٹاون میں 100بستروں کے اسپتال کا منصوبہ 2013سے التوا کا شکار ہے ۔

صدر ٹاؤن میں 200بستروں کے اسپتال کا منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ قاضی احمد نوابشاہ میں ایکسیڈنٹ ایمرجنسی سینٹر کے لیے ایک روپیہ بھی جاری نہیں ہوا۔ٹھٹھہ،سجاول،مٹھی،بدین،خیرپورسمیت سندھ بھر میں ڈسڑکٹ،تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال منصوبے ادھورے رہ گئے ۔کراچی،خیرپور،میرپورخاص ،مٹیاری میں میڈیکل کالجز منصوبے نامکمل ہیں جبکہ سکھر میں چائلڈہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ منصوبے کے لیے ایک روپیہ جاری نہیں ہوا۔

دوسری جانب سے صوبائی حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہتر نہیں ہوسکی ہے ۔رواں مالی سال میں بھی محکمہ تعلیم کے منصوبے نامکمل رہے ۔کراچی تا کشمور 900سے زائد اسکولز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔عمرکوٹ،سانگھڑ،مٹیاری میںپبلک اسکولز منصوبہ نامکمل ہے ۔45سنگل سیکشن ہائی اسکولز کی تعمیر کا منصوبہ 4سال سے ادھورا ہے ۔

ہائی ،ہائیر سکینڈری اسکولز پراجیکٹ بھی پورا نہیں ہوسکا۔230اسکولز میں لیب،لائبریریز منصوبہ چار مالی سال گزرنے کے باوجود نامکمل ہے ۔25کیمبرج سسٹم اسکولز کی تعمیرکا منصوبہ 2013سے التواء کا شکار ہے ۔مختلف اضلاع میں کیڈٹ کالجز کے قیام کا خواب پورا نہیں ہوا۔بے نظیر بھٹو انسٹیٹوٹ اآف مینجمنٹ سائنسز دادو اسکیم 2011سے ادھوری ہے ۔بلاول بھٹو انجینئرنگ کالج لیاری پراجیکٹ 2013سے بجٹ بک کا حصہ ،تدریس شروع نہیں ہوئی۔1554ملین روپے لاگت کا ذوالفقار بھٹوا نجیئنرنگ کالج گڈاپ کی تعمیر نامکمل ہے ۔جبکہ شکارپور،سیہون،بن قاسم ٹاون کالجز منصوبے بھی ادھورے ہیں ۔سندھ کی پہلی سرکاری ویمن یونیورسٹی سکھر منصوبے میں پیشرفت نہ ہوسکی۔