جے آئی ٹی کے ایک ممبر شریف خاندان کے کاروبار کی پہلے بھی تحقیقات کر چکے ہیں۔ رؤوف کلاسرا کا انکشاف

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 25 مئی 2017 11:41

جے آئی ٹی کے ایک ممبر شریف خاندان کے کاروبار کی پہلے بھی تحقیقات کر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25 مئی 2017ء) : نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ نگار رؤوف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ پانامہ کیس کی جے آئی ٹی میں شامل ایک ممبر کئی سال پہلے ہی شریف خاندان کے بیرون ملک موجود کاروبار اور ان کی سرمایہ کاری کی تفصیلات کی تحقیقات کر چکے ہیں۔ پروگرام میں رؤوف کلاسرا نے بتایا کہ کچھ سال قبل ہوا یہ تھا کہ سوئٹزر لینڈ سےکچھ غیر ملکی پاکستان تشریف لائے ۔

ان میں سے ایک شخص کی اس وقت کے سربراہ مملکت سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں انہوں نے اس وقت کے سربراہ مملکت سے کہا کہ میں آپ کو ایک نہایت اہم معلومات فراہم کرتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے بڑی بزنس فیملی نے آف شور کمپنی کے ذریعے یورپ میں تین سو ملین ڈالرکی رقم کی سرمایہ کار کی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

اور یہ سب سرمایہ کاری میرے ذریعے ہی کی گئی۔ رؤوف کلاسرا نے بتایا کہ سوئٹزرلینڈ سے آئے اس شخص کے ساتھ غالبا کسی ڈیل کے دوران شریف خاندان کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہ معلومات دینے پاکستان پہنچ گیا۔

انہوں نے کہاکہ سوئٹزرلینڈ کے اس بندے کی معلومات کے بعد پاکستان میں موجود دو بندوں کو کہا گیا کہ اس تمام تر معلومات کی تصدیق کروائی جائے۔ سوئٹزرلینڈ سے آئے شخص کو سب معلوم تھا کہ شریف خادان نے کہاں کہاں ڈیلز کیں؟ اور شریف خاندان نے کہاں کہاں اور کس کس جگہ پیسہ لگا ہوا ہے۔پاکستان سے بیرون ملک گئے دو لوگوں نے وہاں جا کر اس انفارمیشن کی تصدیق کی اور وطن واپسی پر ایک موٹی تگڑی رپورٹ تیار کی جس میں شریف خاندان کی سرمایہ کاری اور کاروبار کی تمام تفصیلات بتائی گئیں۔

یہ رپورٹ سربراہ مملکت کو پیش کی گئی جنہوں نے اس رپورٹ پر مزید کارروائی کے لیے اسے اس وقت کے وزیر اعظم کوبھجوا دیا۔ رؤوف کلاسرا نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کے اندر کھاتے شریف خاندان سے روابط تھے لہٰذا انہوں نے یہ رپورٹ دبا لی۔ اب بات یہ ہے کہ جن دو لوگوں کو تصدیق کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا تھا ان میں سے ایک شخص پانامہ لیکس پر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کا ممبر ہے۔

اور وہ اس سب کی تحقیقات پہلے سے ہی کر چکے ہیں۔ اب شریف خاندان سے جو سوالات پوچھے جا رہے ہیں وہ دراصل اس تحقیق کی وجہ سے پوچھے جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سوئٹزر لینڈ سے واپسی پر تیار کی گئی رپورٹ نیب اور انٹیلی جنس ادارے کے پاس بھی ہو گی۔ اور ایسی رپورٹ سے متعلق یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ رپورٹ دو تین جگہوں پر محفوظ ہے ۔ رؤوف کلاسرا نے مزید کیا کہا آپ بھی ملاحظہ کیجئیے:

متعلقہ عنوان :