رواں مالی سال کے لیے تمباکو کی صنعت سے 45 ارب روپے کا خسارہ رہا

آئندہ مالی بجٹ 2017-18 میں 33 سے 44 روپے فی پیکٹ ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجاویز زیرگردش

منگل 23 مئی 2017 21:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2017ء) رواں مالی سال کے لیے تمباکو کی صنعت سے 45 ارب روپے کا خسارہ رہا جبکہ مقامی ترقیاتی تنظیم اور وفاقی وزارتِ امور صحت کی رواں سال کے آغاز میں ٹیکس کو بنیاد بنا کر تمباکو نوشی میں کمی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تمباکو مصنوعات کی صنعت جسے ملکی ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے کے طور پر جانا جاتا ہے، صحت اور ریونیو پر پالیسی بنانے کے ادارے اب تک اپنی اپنی حدود کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانہ بتدریج ہر سال کی بنیاد پر اس مخصوص صنعت سے ٹیکس اہداف کے حصول میں مسلسل گراوٹ کی راہ پر گامزن ہے۔

مقامی ترقیاتی تنظیم اور وفاقی وزارت امورصحت کی جانب سے آئندہ مالی بجٹ 2017-18 میں سگریٹ کے پیکٹ پر 33 سے 44 روپے فی پیکٹ ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجاویز گردش کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

وفاقی وزارت امور صحت اور ترقیاتی تنظیم کا ماننا ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کے بڑھنے سے تمباکو نوشی کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو گی جبکہ بین الاقوامی ادارے نیلسن اور یورو مانیٹر کے اعداد و شمار کے مطابق مصنوعات پر ڈیوٹی بڑھانے سے ملک میں سمگل شدہ مصنوعات کو فروغ ملتا ہے اور اس غیر قانونی تجاری سرگرمیوں میں ملوث طبقات ناجائز منافع بنا کر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا موجب بنتے ہیں۔

مقامی ترقیاتی تنظیم کے سربراہ ندیم اقبال کا ماننا ہے کہ تمباکو مصنوعات کی صنعت خود جعلی سگریٹ بنانے کی صنعت کو فروغ دیتی ہے اور ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں غیر قانونی چھوٹی صنعتیں قائم ہیں جن کو ملک میں کاروبار رنے والی غیر ملکی صنعتوں کی پت پناہی حاصل ہے۔ جبکہ تمباکو مصنوعات کی صنعت سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اربوں روپے کی صنعت کو ان غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں سے منسلک کرنا ایک فطری عمل ہے تاکہ سمگلنک کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث طبقہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔

دی نیٹ ورک نے قومی خزانے کو نقصان کے سرکاری اعدادو شمار کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قومی خزانہ خسارے میں ہو اور تمباکو مصنوعات کی صنعت منافع کما رہی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے تمباکو مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے تمباکو نوشی کی شرح میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ٹیکسوں میں اضافہ ملک میں ٹیکس چوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

سمگلنگ کی روک تھام کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو تمام سگریٹ ساز اداروں کا مکمل ریکارڈ بشمول ایجنٹس، ڈسٹریبیوٹرز، ہول سیلرز، ادا کردہ ٹیکس کا ریکارڈ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تاکہ آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں کے ٹیکس ریونیو کو بڑھایا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :