پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس

این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کے دور میں ادارہ کو 3 ارب روپے کا نقصان ہوا، لاہور اور دبئی میں دوگنا سے زائد قیمت پر خریدی گئی جائیدادوں کے کیس عدالت نے نمٹا دیئے ہیں، ادارہ ان کے خلاف نظرثانی کی اپیل میں جائے گا ، پی اے سی کو بریفنگ وزارت پانی و بجلی سے لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضوں اور ترسیلاتی نقصانات کی موجودہ صورتحال پر کل بدھ کو تفصیلی بریفنگ طلب

منگل 23 مئی 2017 16:33

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 مئی2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کے دور میں ادارہ کو 3 ارب روپے کا نقصان ہوا، لاہور اور دبئی میں دوگنا سے زائد قیمت پر خریدی گئی جائیدادوں کے کیس عدالت نے نمٹا دیئے ہیں، ادارہ ان کے خلاف نظرثانی کی اپیل میں جائے گا جبکہ کورنگی کراچی میں 20 ملین روپے فی ایکڑ کی جائیداد 90 ملین فی ایکڑ میں خریدی گئی، یہ کیس عدالت میں چل رہا ہے، عدالتوں نے کیسز ایف آئی اے کی رپورٹس پر نمٹائے ہیں۔

پی اے سی نے وزارت پانی و بجلی سے لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضوں اور ترسیلاتی نقصانات کی موجودہ صورتحال پر کل بدھ کو تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔ اجلاس منگل کو پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں پی اے سی کے ارکان سیّد کاظم علی شاہ، شیخ رشید احمد، پرویز ملک، مشاہد حسین سیّد، شفقت محمود، شیری رحمن، سردار عاشق حسین گوپانگ، شیخ روحیل اصغر، راجہ جاوید اخلاص، جنید انوار چوہدری، ارشد خان لغاری سمیت متعلقہ سرکاری محکموں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں نیشنل انشورنس کارپوریشن (این آئی سی ایل) کی 10 سالہ کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوئے این آئی سی ایل کے چیئرمین امین بندوقہ نے کہا کہ 2007ء میں پری ٹیکس منافع 8 ارب 30 کروڑ روپے، 2008ء میں ایک ارب 51 کروڑ روپے، 2009ء میں 3 ارب 58 کروڑ روپے، 2010ء میں ایک ارب 49 کروڑ روپے، 2011ء میں 2 ارب روپے، 2012ء میں 3 ارب 26 کروڑ روپے، 2013ء میں 3 ارب 35 کروڑ روپے، 2014ء میں 3 ارب 16 کروڑ روپے، 2015ء میں 9 ارب 33 کروڑ روپے اور 2016ء میں 4 ارب 63 کروڑ روپے تھا۔

انہوں نے کہا کہ این آئی سی ایل ان چند سرکاری کارپوریشنوں میں سے ہے جو کثیر منافع میں ہیں، ادارہ کا منافع ادارے کے مختلف منافع بخش شعبوں میں سرمایہ کاری کی بدولت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009ء سے 2011ء تک کے حسابات آڈٹ کیلئے تیار کر لئے ہیں، 2009ء میں ہم نے ادارے کا چارج سنبھالا تو آڈٹ کا نظام نہیں تھا، ہم نے زیر التواء حسابات آڈٹ کیلئے تیار کر لئے ہیں، جون 2017ء تک تمام حسابات مکمل کرکے آڈٹ کرا لیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں این آئی سی ایل کے حکام نے کہا کہ جب تک ماضی کے حسابات کا آڈٹ مکمل نہیں ہو گا موجودہ آڈٹ کرانا ممکن نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام واجبات وصول کر لئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2015ء، 2016ء کے مقابلہ میں 2017ء کا پریمیئم دوگنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کا 50 فیصد منافع سرمایہ کاری اور 50 فیصد جائیدادوں سے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کی لاہور، کراچی اور دبئی میں جائیدادیں ہیں، ہم نے جب سے ادارے کا چارج سنبھالا ہے ہم نے نہ کوئی جائیداد خریدی ہے اور نہ ہی کوئی بیچی ہے۔

پی اے سی کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ دبئی میں ادارے کی ایک ارب 70 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد ہے، ان کی ادائیگی ابھی باقی ہے، بات چیت ہو چکی ہے جس کے بعد یہ جائیداد این آئی سی ایل کے نام منتقل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے اس لئے اجتناب کیا ہے کہ اس میں بہت زیادہ رسک ہے، لاہور میں زمین کی خریداری کے سکینڈل میں ملوث محسن وڑائچ اور حبیب وڑائچ وغیرہ مبینہ طور پر ملوث پائے گئے۔

یہ زمین ادارہ کے پاس ہے مگر یہ مارکیٹ ویلیو سے بہت زیادہ رقم پر خریدی گئی ہے۔ 2015ء میں اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے، ادارے کو 50 کروڑ روپے کے جو چیک دیئے گئے تھے وہ کیش نہیں ہو سکے، ہم نے ہر چیک پر ایف آئی آر کٹوائی ہے، ہم نے اب نیب اور ایف آئی اے سے کہا ہے کہ وہ یہ رقم ریکور کرانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ان کی وجہ سے ہی ہمیں یہ رقم ملنا تھی، ہم عدالت میں اس کیس پر نظرثانی کی درخواست کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ایئرپورٹ کے قریب 20 کنال سے کچھ زائد زمین خریدی گئی، 8 کروڑ روپے کی رقم مل گئی تھی، 42 کروڑ روپے سے زائد رقم ابھی بھی باقی ہے۔ سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ اگر اس وقت ڈبل قیمت پر خریدی گئی تھی تو اب زمین کی قیمت ڈبل ہو گئی ہے، اب یہ زمین ادارہ کو اپنے پاس رکھنی چاہئے تھی۔ چیئرمین این آئی سی ایل نے کہا کہ یہ زمین 50 کروڑ کی تھی جو 100 کروڑ میں خریدی گئی۔

سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ زمین کی قدر کا تعین کیسے ہوا اور اب اس کی صورتحال کیا ہے، سیکرٹری وزارت تجارت کو ان سارے معاملات کو دیکھنا چاہئے۔ چیئرمین این آئی سی ایل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے زمین کی قدر کا تعین کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دبئی کی جائیداد کے حوالہ سے بھی ایف آئی اے کی رپورٹ پر کیس نمٹا دیا گیا ہے، ادارہ اس کیس کے حوالہ سے بھی نظرثانی کی اپیل کرے گا۔

کورنگی کراچی میں 20 ملین کی بجائے 90 ملین فی ایکڑ کی قیمت پر زمین کی خریداری کے معاملہ پر پی اے سی کو بتایا گیا کہ اس کیس کی سماعت جاری ہے۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ اس کیس کے ملزم سابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان نیازی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں 20 کنال زمین جس کی اصل قیمت 3 لاکھ فی مرلہ تھی وہ 20 لاکھ روپے فی مرلہ میں خریدی گئی، اس میں بھی ایاز خان نیازی ملوث تھے۔

این آئی سی ایل کے چیئرمین نے بتایا کہ اس سے تقریباً ادارہ کا تین ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ 3 ارب روپے کا غبن کرنے والے کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ شفقت محمود نے کہا کہ ریاست کے مقدمات میں کبھی کسی مقدمہ کا فیصلہ ریاست کے حق میں بھی ہوا ہے، یہ اٹارنی جنرل سے پوچھنا چاہئے۔ سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ 20 ہزار روپے فیس والا وکیل کیا کرے گا۔

ادارے میں بوگس ڈگریوں پر بھرتی ہونے والے افسران کے معاملہ کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ تمام افسران عدالت چلے گئے ہیں۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے، اس سے بڑا جرم کیا ہو گا۔ گردشی قرضوں کے حوالہ سے وزارت پانی و بجلی کی طرف سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 1992ء میں جنیکوز اور ڈسکوز کمپنیاں بنائی گئیں۔

اس وقت 10 جنیکوز کمپنیاں ہیں، واپڈا کے پاس صرف ہائیڈرو پاور کا شعبہ رہ گیا ہے، اس طرح 10 ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں۔ 132 کے وی اور اس سے کم کا اختیار ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے پاس ہے، اس سے اوپر کا اختیار این ٹی ڈی سی کا اختیار ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ وزارت پانی و بجلی 33، 66 اور 132 کے وی کے تمام ڈسٹری کمپنیوں کے گرڈ سٹیشنوں کی تفصیلات فراہم کرے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کے بجلی صارفین کی تعداد 2 کروڑ 53 لاکھ سے زائد ہے، جن میں سے 86 فیصد گھریلو، 11.4 فیصد کمرشل اور 1.3 فیصد انڈسٹریل ہیں۔ 49.5 فیصد بجلی کی کھپت گھریلو صارفین اور 50 فیصد باقی شعبے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال بجلی کی مجموعی ریکوری 95.5 فیصد اور رواں سال اب تک 92 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ بقایا جات کے معاملات طے پا گئے ہیں۔

اس طرح پنجاب کے ساتھ بھی معاملہ طے پا گیا ہے، صوبہ کے پی کے کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، آزاد کشمیر کے ساتھ مسائل پر بات ہو رہی ہے، ان کے ساتھ اصل مسئلہ ٹیرف کا ہے۔ پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ملک کے گردشی قرضے 400 ارب روپے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے وزارت پانی و بجلی کو ہدایت کی کہ لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضوں اور ترسیلاتی نقصانات کی تفصیلات سے متعلق مکمل تیاری کرکے کل بدھ کو پی اے سی کو تفصیلات سے آگاہ کریں۔