وفاقی وزارت داخلہ کے نائب قاصد کی پاک سیکرٹریٹ کے ’’آر‘‘ بلاک کی چھٹی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی

محمد اقبال چھٹیاں گزارنے کے بعد بیٹے کو لیکر دفتر آیا، اپنی جگہ اپنے بیٹے کو ملازمت دلوانا چاہتا تھا ، نوکری نہ ملنے پر دلبرداشتہ ہو کر اقبال نے چھٹی منزل سے چھلانگ لگا دی، اقبال کی نعش پولی کلینک میں پوسٹمارٹم کے بعد شور کوٹ روانہ کردی گئی

منگل 23 مئی 2017 16:19

وفاقی وزارت داخلہ کے نائب قاصد کی پاک سیکرٹریٹ کے ’’آر‘‘ بلاک کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2017ء) وفاقی وزارت داخلہ کے نائب قاصد محمد اقبال نے پاک سیکرٹریٹ کے ’’آر‘‘ بلاک کی چھٹی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی‘ محمد اقبال چھٹیاں گزارنے کے بعد اپنے بیٹے کو لیکر دفتر آیا اور اپنی جگہ اپنے بیٹے کو ملازمت دلوانا چاہتا تھا لیکن وزارت داخلہ کے افسروں اور عملے نے کہا کہ آپ کے بیٹے کو اس صورت میں نوکری ملے گی جب آپ دوران سروس فوت ہونگے جس پر دلبرداشتہ ہو کر اقبال نے چھٹی منزل سے چھلانگ لگا دی۔

اقبال کی نعش پولی کلینک میں پوسٹمارٹم کے بعد ان کے آبائی گائوں شور کوٹ روانہ کردی گئی۔ منگل کو وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق اقبال نامی نائب قاصد چھٹیاں گزارنے کے بعد دوبارہ اپنی ملازمت پر آیا تو ایڈمن برانچ میں اس نے اپنے بیٹے کو بھرتی کرنے کے لئے بات چیت کی اور کہا کہ اس کی ایک سال کی ملازمت باقی ہے میری جگہ میرے بیٹے کو بھرتی کیا جائے جس پر وزارت داخلہ کی ایڈمن برانچ کے عملے اور افسر نے کہا کہ آپ کے بیٹے کو صرف اسی صورت میں آپ کی جگہ نوکری ملے گی اگر آپ دوران سروس وفات پاجائیں۔

(جاری ہے)

جس پر اقبال کا وہاں جھگڑا ہوا اور وہ دلبرداشتہ ہو کر آر بلاک کی چھت پر چڑھ گیا اور کہا کہ میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہوں پھر آپ میرے بیٹے کو ملازمت دے دینا۔ وزارت داخلہ کے بے رحم افسروں نے اقبال کو کہا کہ وہ خودکشی کرلے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں جس کے بعد اقبال نے چھٹی منزل سے چھلانگ لگائی اور وہ ایڈمن برانچ کے سامنے آکر گرا اور سڑک پر تڑپتا رہا لیکن وزارت داخلہ کے کسی افسر یا عملے کے رکن نے اسے اٹھایا تک نہیں۔

وزارت خزانہ کے ملازمین نے اقبال کو اٹھا کر پولی کلینک منتقل کیا جہاں وہ دم توڑ گیا۔ پولی کلینک میں پوسٹمارٹم کے بعد اقبال کی نعس اس کے آبائی گائوں شور کوٹ روانہ کردی گئی۔ دوسری طرف اقبال کے بیٹے پر وزارت داخلہ کے افسروں کی طرف سے دبائو ڈالا جارہا ہے کہ آپ موقف اختیار کریں کہ میرا باپ ذہنی مریض تھا۔