پاکستان نے آئی سی جے کا دائرہ اختیار 1960 میں تسلیم کیا ،ْاٹارنی جنرل اشتر اوصاف

اقرار نامے میں پاکستان نے کوئی تحفظات ظاہر نہیں کیے ،ْ نہ ہی کوئی استثنیٰ مانگا رواں برس مارچ میں کیے جانے والے مشروط ڈیکلریشن کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں ،ْانٹرویو

ہفتہ 20 مئی 2017 14:29

پاکستان نے آئی سی جے کا دائرہ اختیار 1960 میں تسلیم کیا ،ْاٹارنی جنرل ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2017ء) اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ پاکستان نے 29 مارچ کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جی) کے ساتھ جس اقرار نامے پر دستخط کیے اس کا مقصد حفاظتی دیواریں قائم کرنا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ پاکستان نے پہلی بار آئی سی جے کے سامنے اپنے تحفظات رکھے ہیں اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار پر جو تحفظات اٹھائے گئے ہیں ان میں پاکستان کی قومی سلامتی کو بھی جواز بنایا گیا ہے۔

اشتر اوصاف نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان نے رواں برس مارچ میں اس طرح کے کیسز میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے متعلق اقرار نامے پر دستخط کیے اور کہا کہ پاکستان نے ستمبر 1960 میں ہی آئی سی جے کے دائرہ اختیار سے متعلق غیر مشروط اقرار نامہ کرلیا تھا۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل 1960 میں ہونے والے اقرار نامے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس اقرار نامے میں پاکستان نے کوئی تحفظات ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی کوئی استثنیٰ مانگا۔

انہوں نے بتایا کہ اس ڈکلیریشن کے ذریعے آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار کو از خود ہی پاکستان نے تسلیم کرلیا تھا۔اشتر اوصاف نے کہا کہ سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1960 میں جو اقرار نامہ کیا گیا اس میں ہم نے کوئی استثنیٰ یا تحفظات ظاہر نہیں کیے۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت نے آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار کو مارچ میں تسلیم کیا اور اس کے پیچھے کوئی بدنیتی ہے لیکن یہ درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں کیے جانے والے اقرار نامے میں تو پاکستان نے پہلی بار فائروالز قائم کیں جس میں قومی سلامتی کے معاملے کو بھی شامل کیا گیا۔اشتر اوصاف نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے کا فوکس ویانا کنونشن اور آپشنل پروٹوکول تھا جس کے بھارت اور پاکستان دونوں دستخطی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آپشنل پروٹوکول آئی سی جے کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ رکن ممالک کے درمیان تنازع کا تصفیہ کرسکے۔اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر واضح کیا کہ رواں برس مارچ میں کیے جانے والے مشروط ڈیکلریشن کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں ،ْاگر ہمیں اس سے دستبردار ہونا ہے تو پھر 1960 کے ڈیکلریشن سے بھی دستبردار ہونا ہوگا جو بغیر کسی استثنیٰ کے آئی سی جے کو دائرہ اختیار دیتا ہے۔

متعلقہ عنوان :