فاٹا میں سیاسی اصلاحات کو نظرانداز کر دینے سے قبائلی عوام کا صبر جواب دے جائیگا ،یہ قومی وحدت اور سلامتی کیلئے نقصان دہ ہوگا، حکومت کی جانب سے اعلان کردہ فاٹا اصلاحاتی پیکیج سیاسی شعبدہ بازی کے لئے کیا تھا، پیپلزپارٹی فاٹا کے عوامی نمائندوں کی جانب سے فاٹا اصلاحات کے لئے کی جانے والی ہر کوشش میں ان کے ساتھ رہے گی

پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی ز رداری کی فاٹا کے پارلیمانی رہنمائوں کے وفدسے ملاقات میں گفتگو

ہفتہ 20 مئی 2017 00:01

فاٹا میں سیاسی اصلاحات کو نظرانداز کر دینے سے قبائلی عوام کا صبر جواب ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 مئی2017ء) سابق صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی ز رداری نے گزشتہ سال اگست میں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ فاٹا اصلاحاتی پیکج کے بارے میں کہاہے کہ حکومت نے یہ سیاسی شعبدہ بازی کے لئے کیا تھا اور انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات کو نظرانداز کر دینے سے قبائلی عوام کا صبر جواب دے جائے گا جو قومی وحدت اور سلامتی کے لئے نقصان دہ ہوگا۔

وہ جمعہ کو فاٹا کے پارلیمنٹیرنز کے ایک وفد سے جمعہ کی سہ پہر زرداری ہائوس اسلام آباد میں ملاقات میں گفتگو کر رہے تھے ۔ اس وفد میں اراکین قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی، ساجد طوری اور سینیٹر ساجد طوری شامل تھے جبکہ پی پی پی فاٹا کے صدر اخونزادہ چٹان، سینیٹر سردار علی خان، پی پی پی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات مصطفی نواز کھوکھر اور سابق صدر کی پولیٹیکل سیکریٹری رخسانہ بنگش بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

(جاری ہے)

شاہ جی گل آفریدی نے حکومت کی جانب سے اصلاحات پیکیج سے پیچھے ہٹ جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب فاٹا کے پارلیمنٹیرینز احتجاجی مظاہرہ کرنے اور فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کے لئے حکمت عملی بنانے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سابق صدر کو اس کوشش میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ پی پی پی نے 2011ء میں فاٹا اصلاحات کی ابتدا کی اور بدنام زمانہ ظالمانہ ایف سی آر میں دور رس تبدیلیوں کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی فاٹا کے عوامی نمائندوں کی جانب سے فاٹا اصلاحات کے لئے کی جانے والی ہر کوشش میں ان کے ساتھ رہے گی۔ سابق صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر نے پہلے ہی پارٹی کے پارلیمنٹیرینز کو ہدایت کر دی ہے کہ مجوزہ رواج ایکٹ کو مسترد کر دیں کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اور فاٹا کے صوبہ کے پی میں ضم ہونے سے متضاد ہیں۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ صدر کا یہ اختیار کہ فاٹا کے لئے وہ بغیر عوامی نمائندوں کی شرکت کے قوانین بنا سکیں اور اس کے ساتھ ظالمانہ ایف سی آر نو آبادیاتی ڈھانچے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایف سی آر کو ختم ہونا چاہیے اور صدر کا قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو منتقل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اسے صوبہ کے پی میں ضم کیا جائے۔

انہوں نے یادلایا کہ اس بارے کے پی کی صوبائی اسمبلی نے متفقہ قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ فاٹا کے منتخب پارلیمنٹیرینز بھی فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے حامی ہیں جس کی سوائے دو سیاسی پارٹیوں کے باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے حمایت کی ہے۔ فاٹا کے عوام نے مختلف پلیٹ فارم پر فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حکومت اور وہ ساری قوتیں جو فاٹا اصلاحات اور فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے خلاف ہیں وہ قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔

فاٹا کے عوام کو ان کے حقو ق نہ دے کر یہ عناصر آگ سے کھیل رہے ہیں۔ سابق صدر نے فاٹا کے عوام کو بااختیار بنانے کے لئے فاٹا میں مضبوط مقامی حکومتوں کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کا اعلان اگست 2016ء میں کیا گیا لیکن کابینہ نے مارچ 2017ء میں اسے منظور کیا۔ فاٹا اصلاحات کو سب نے سراہا تھا حالانکہ ان پر کچھ تحفظات بھی تھے۔

لین قومی اسمبلی میں حال ہی میں جو بل پیش کیا گیا وہ اصلاحات کے عمل کی نفی کرتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو فاٹا تک وسعت نہیں دی گئی حالانکہ اس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایف سی آر کی جگہ رواج ایکٹ ایک صدی پرانے ظالمانہ قانون کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ رواج ایکٹ کو کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا حالانکہ تمام اسٹیک ہولڈروں نے اس مطالبہ کیا تھا۔

حکومت فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کے وعدے سے مکر گئی اب وہ فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کی بجائے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی بات کر رہی ہے۔ حکومت کو بااختیار کرنے کے وعدے سے بھی مکر گئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے نہ تو مقامی حکومت کا بل شیئر کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کو فاٹااصلاحات کے عمل کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دے گی ۔

متعلقہ عنوان :