قائمہ کمیٹی سیفران کے اجلاس میں فاٹا سے متعلق رواج بل 2017پر اتفاق رائے نہ ہوسکا ، بل کی توثیق کا معاملہ اراکین کے اختلافات کی نظر،کمیٹی کے آئندہ اجلاس بارے بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا

ایف سی آر کے ذریعے قبائلی عوام کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے ، مجوزہ ایکٹ کے تحت فاٹا کے عوام رواج اور مروجہ قوانین دونوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے،اجلاس میں سرکاری طور پر تسلیم اجلاس میں مسلم لیگ (ن) ،جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے اراکین کا فاٹا پر ایک ساتھ متوازی قوانین کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار، مسئلے کے حل کیلئے قبائلی علاقوں میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ امیر حیدر ہوتی ،غالب وزیر، آفتاب شیرپائو ، مراد سعید اور شہریار آفریدی بھی اجلا س میں شریک نہ ہوسکے

منگل 16 مئی 2017 22:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 مئی2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستیں وسرحدی امورکے اجلاس میں فاٹا سے متعلق رواج بل 2017پر اتفاق رائے نہ ہوسکا ، بل کی توثیق کا معاملہ اراکین کے اختلافات کی نظر ہوگیا ، کمیٹی کے آئندہ اجلاس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا جبکہ اجلاس میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ ایف سی آر کے ذریعے قبائلی عوام کی آزادی کو سلب کی گیا ہے ، مجوزہ ایکٹ کے تحت فاٹا کے عوام رواج اور مروجہ قوانین دونوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، اجلاس کی کاروائی کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) ،جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے اراکین نے فاٹا پر ایک ساتھ متوازی قوانین کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے حل کیلئے قبائلی علاقوں میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کردیا ،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی ، جنوبی وزیرستان سے مسلم لیگ (ن) کے غالب خان وزیر، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو ، تحریک انصاف کے اراکین مراد سعید اور شہریار آفریدی بھی شریک نہ ہوسکے ۔

(جاری ہے)

منگل کو قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین محمد جمال الدین کی صدارت میں ہوا۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ روز پیش ہونے والے رواج بل 2017کے جائزے کیلئے کمیٹی کا اجلاس ہنگامی طور پر طلب کیا گیا تاہم اجلاس کی کاروائی اراکین کے اختلافات کی نظر ہوگئی ۔ اجلاس میں سیکرٹری سیفران نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رواج ایکٹ سے ایف سی آر منسوخ ہو جائے گا ، یہ ظالمانہ قانون ڈیڑھ سوسالوں سے اس علاقے پر مسلط ہے جس کے تحت قبائل کی آزادی سلب کی گئی ہے ، ہماری کوشش ہے کہ قبائلی عوام کو اس کے چنگل سے نکالا جائے اور انہیں قومی دھارے میں لایا جائے تاکہ انہیں بھی باقی ملک کے مساوی ترقی کے مواقع حاصل ہوں اور وہ بھی اس ملک کے شہری تصور ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ ایف سی آر کی منسوخی پر ضابطہ کار کے حوالے سے خلاء کو پر کرنے کیلئے رواج ایکٹ لایا گیا ہے ۔ شازیہ مری نے اعتراض اٹھایا کہ کیا فاٹا کو اپنے صوبے میں شامل کرنے کیلئے خیبرپختونخوا اسمبلی ایسی قرارداد کی منظوری ہوئی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرنے اور لالی پاپ دینے کی بجائے اور فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کیلئے آئینی لوازمات پورے کرے ۔

رواج ایکٹ قبائلی علاقوں کو بیچ میں لٹکانے والی بات ہے ، ہمیں بتایا جائے کہ آئین میں ترامیم کیوں نہیں کی جا رہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بنیادی سوالات یہی ہیں کہ پہلے آئینی ترامیم کریں خودبخود ریگولر قوانین کا نفاذ ہوجائے گا کیا اس قسم کے ایکٹ کے ذریعے یہ فاٹا کی چھتری کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، یہ آئینی ترمیم کردیں ہم حکومت کی تمام 36سفارشات کو من وعن تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارا مینڈیٹ رواج بل کا جائزہ لینا ہے ، آئینی ترمیم کو قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کے سپرد کیا گیا ہے ۔ وزیرسیفران لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی لڑائی جھگڑے کی نوبت آگئی تھی ، پانچ سالوں میں قبائل کو قومی دھارے میں لانے کی کاروائی کو مکمل کرنا چاہتے ہیں ،36نکات پر مشتمل سفارشات ہیں ، سب متفق ہیں کہ ایف سی آر کو ختم کیا جائے ۔

شازیہ مری نے کہا کہ وزیرسیفران کے بیانات میں تضادات ہیں اگر ضم کرنا چاہتے ہیں تو واضح طور پر بتائیں ،80صفحات پر مشتمل مسودہ ہمیں تھمادیا ہے جبکہ آئینی لوازمات کو ٹچ بھی نہیں کیا جا رہا ۔ وزیرسیفران نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کی نشستوں کا تعین بھی کیا جا رہا ہے ، سفارشات کے تحت30فیصد ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوں گے ، گورنر کی سربراہی میں ایڈوائزری کمیٹی بنے گی جس میں اراکین پارلیمنٹ شامل ہوں گے ، ترقیاتی کمیٹی کے 40کروڑ کے منصوبوں کی منظوری کے اختیارات کو بڑھاتے ہوئے 2ارب روپے کردیا گیا ہے ، پھاٹک سسٹم قبائلی علاقوں سے ختم ہوجائے گی ، اکثریت کا مطالبہ تھا کہ پہلے آئینی ترامیم لائیں انسانی حقوق اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے رواج بل میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔

چیئرمین کمیٹی مولانا جمال دین نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کے ہاتھوں ایف سی آر کی موت ہونے جارہی ہے اسے ہونے دیں ، اراکین تحریری طور پر بھی اپنی تجاویز دے سکتے ہیں ۔ جی جی جمال نے کہا کہ ہم جب اضلاع میں جاتے ہیں تو لوگ یہی دعا کررہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کچہریوں سے بچائے کیا ہم یہ نظام فاٹا میں برآمد کرنا چاہتے ہیں ، تمام قبائلی علاقوں کے رواج مختلف ہیں ، اگر ایک رواج نافذ کیا جا رہا ہے تو سارے قبائلیوں سے پوچھنا پڑے گا ۔

وزیرسیفران نے بتایا کہ متعلقہ ایجنسی کے رواج کے بارے میں مقامی سطح پر کمیٹییاں قائم ہوں گی جو مقامی رواج کے مطابق قانون کا فیصلہ کریں گی ۔ شہاب الدین نے مطالبہ کیا کہ متوازی قوانین نہ دیے جائیں ہمیں ریگولر قانون چاہیے سب لوگ پاکستانی کہلاتے ہیں ہمیں علاقہ غیر اور قبائلی کیوں کہا جاتا ہے ۔ حقوق نہ ملنے پر قبائلی عوام ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں خدارا ہم پر رحم کریں ، ریگولر قانون نہیں دے سکتے تو ہمیں شریعت دے دیں اور اگر ہمیں اب بھی حقوق نہ دیے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی ، جو متوازی قوانین دینے جا رہے ہیں کیا آنے والی نسلیں اس کی منسوخی کیلئے قدم اٹھائیں گی ، صاف سی بات ہے کہ صوبے میں ضم کردیں تاخیر نہ کریں ۔

وزیر سیفران نے کہا کہ اس بل کے بارے میں اکثریتی رائے کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے علاوہ مقامی رواج سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکے گا ۔ نعیمہ کشور نے سوال اٹھایا کہ ایک علاقے کیلئے دو قوانین کیسے ہو سکتے ہیں ، اب بھی قبائلی علاقوں میں یہ رواج موجود ہے کہ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کی نشاندہی کرتے ہوئے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کردے تو وہ لڑکی ہمیشہ کیلئے بغیر شادی کے بیٹھی رہتی ہے اور رواج کے تحت’’غک‘‘قرار دیتے ہوئے اس کی شادی نہیںہونے دی جاتی ۔

شازیہ مری نے بھی کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا رواج بل میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ تحریک انصاف کے قیصر خان نے کہا کہ اگر فاٹا ضم ہوجاتا ہے تو قوانین خود بخود نافذ ہو جائیں گے ، ہمیں اسی بجٹ میں این ایف سی کے 100ارب روپے چاہیئں ۔ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کار کا قانون نافذ کیاجائے ۔ کوئی آئینی وقانونی تصادم نہیں ہوگا اگر فاٹا صوبے میں ضم ہوجاتا ہے ۔

نعیمہ کشور، صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی مطالبہ کیا کہ اگر ریگولرقوانین نافذ نہیں کر سکتے تو شریعت کا نفاذ کردیں ۔ شازیہ مری نے کہا کہ رواج بل میں سول اور فوجداری معاملات کو رواج کے مساوی قراردیا گیا ہے ۔ ارکان کا موقف ہے کہ دو متوازی قانون کیسے چلیں گے ۔ مولانا جمال الدین نے کہا کہ اراکین بل پر بحث کریں اورمضمرات سے آگاہ کریں اور اگر یہ قانون متوازی ہے تو ترامیم لائیں ۔

اجلاس کے دوران کمیٹی اراکین میں رواج بل پر اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔ اراکین نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایف سی آر کو ختم کرتے کرتے ہم قبائلی عوام کو ڈبل ایف سی آر نافذ نہ کردیں کہ وہاں کے نوجوان پرانے نظام کو یاد کریں ۔ رواج بل میں اصلاحات کے حوالے سے نہ سر کا پتہ چلتا ہے نہ پائوں کا ۔ وزیرسیفران نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ رواج بل میں بھی بنیادی طور پر شریعت کے مطابق فیصلے ہوں گے ۔

انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایف سی آر کی بعض شقوں کو رواج بل میں شامل کیا گیا ہے ۔ اجلاس کی کاروائی کے دوران بل پر اتفاق رائے ہوسکا نہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس کا کوئی فیصلہ کیا جا سکا۔ اجلاس کی کاروائی نا مکمل رہ گئی جس پر چیئرمین کمیٹی نے اعلان کیا کہ اسپیکر سے مشاورت کرنے کے بعد کمیٹی کا آئندہ اجلاس طلب کریں گے ۔ اجلاس میں کمیٹی کے 21اراکین میں 10 غیر حاضر تھے ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی ، مسلم لیگ (ن) کے غالب خان وزیر بھی شامل ہیں جبکہ اجلاس میں خصوصی دعوت پر مدعو آفتاب احمد خان شیرپائو ، تحریک انصاف کے اراکین مراد سعید اور شہریار آفریدی بھی شریک نہ ہوسکے ۔ (اع)