پہلے دہشت گرد ہم پر حاوی تھے اب ہم ان پر حاوی ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان

پہلے وہ ہمارے پیچھے تھے اب ہم ان کے پیچھے ہیں ،ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ ہماری آنکھ اور کان کھلے ہیں،نواب ثناء اللہ خان زہری کا نجی ٹی وی کو انٹر ویو

منگل 9 مئی 2017 23:59

پہلے دہشت گرد ہم پر حاوی تھے اب ہم ان پر حاوی ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2017ء) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ آج کا بلوچستان ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے جس کا مشاہدہ عوام ، مقتدر حلقے اور میڈیا خود کر رہا ہے، آج آزاد ذرائع بھی اپنے سروے میں بلوچستان میں تعلیم، صحت، آبنوشی، روزگار سمیت دیگر شعبوں میں آنے والی بہتری کو تسلیم کر رہے ہیں، پہلے دہشت گرد ہم پر حاوی تھے اب ہم ان پر حاوی ہیں، پہلے وہ ہمارے پیچھے تھے اب ہم ان کے پیچھے ہیں ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ ہماری آنکھ اور کان کھلے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی نیوز چینل کو صوبائی حکومت کی کارکردگی سے متعلق دئیے گئے تفصیلی انٹرویو میںکیا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کو پرامن بنانے کے لیے ہم پوری طرح پر عزم ہیں ،ہمیں کسی کی ناراضگی کا ڈر نہیں بلکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جائیں گے، انہوںنے کہا کہ جب ہم نے 2013اقتدار سنبھالا تو ناصرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے حالات خراب تھے، لیکن 2017 میں حالات میں زمین اور آسمان کا فرق ہے، ہم نے صوبے کو پٹڑی پر ڈالتے ہوئے امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کی سمت کا تعین کر دیاہے، ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم بلوچستان کے وارث ہیں، ہمیشہ سے بلوچستان میں بلوچ ہی وزیراعلیٰ رہے ہیں، لہذا حالات کی خرابی اور پسماندگی کا الزام کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ جمہور اور جمہوریت میں نمائندگی کا حق انہیں ملتا ہے جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہو، اگر باہر بیٹھے لوگ واپس آکر پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے عوام کے پاس جا کر مینڈیٹ حاصل کرتے ہیں تو ہم اس کا احترام کریں گے، تاہم یہ واضح رہنا چاہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایندھن کے طور پر استعمال ہونے نہیں دیں گے، باہر بیٹھے لوگ ہمارے نوجوانوں کی سروں کی قیمت وصول کر کے پر تعیئش زندگی گزار رہے ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ان کا باہر بیٹھے لوگوں سے نہیں ان نوجوانوں سے رابطہ ہے جو ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور اب ان کی ایک کال پر جوق در جوق واپس آکر ہتھیار ڈال رہے ہیں ، گزشتہ دنوں صوبائی اسمبلی کے سبزہ زار پر پہاڑوں سے آنے والے 450 سے زائد نوجوانوں نے ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ملک سے وفاداری کا اعلان کیا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ پہاڑوں سے واپس آنے والوں کو پر امن بلوچستان پالیسی کے تحت تحفظ ، تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کیا جا رہا ہے ،ان کی بحالی ہمارا فرض ہے ، واپس آنے والے ہمارے بچے ہیں ،ہم نے انہیں معاف کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وہ اب تک پہاڑوں پر رہ جانے والے لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ بھی واپس آجائیں اور اپنے خاندان کے ہمراہ ایک محفوظ اور خوشحال زندگی گزاریں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جو واپس نہیں آئے گا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کوشش کرے گا ہم اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں بہت بڑی قوتیں شامل ہیں تاہم ہماری سیکورٹی فورسز اور عوام نے قربانیاں دیتے ہوئے صوبے کے خلاف کی جانے والی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا ہے اب "را" کے پیسوں سے دہشت گردی نہیں ہونے دی جائیگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ مینڈیٹ دینے اور احتساب کرنے والے عوام ہیں آئندہ انتخابات میں ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ عوام کے سامنے جائیں گے اور اگر ہماری کارکردگی اچھی ہوگی تو عوام ہمیں دوبارہ اپنا حق نمائندگی دیں گے، انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان یا کسی اور جماعت کو مینڈیٹ ملا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور ہم عمران خان کی طرح بے صبری کا مظاہرہ نہیں کریں گے، ہم نے 5سال تک پیپلز پارٹی کو بھی حکومت کرنے دی، وزیراعلیٰ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ آج بلوچستان کی شاہراہیں محفوظ ہیں ، لوگ 24 گھنٹے ان پر سفر کرتے ہیں اور رات گئے تک تجارتی مراکز کھلے رہتے ہیں ، جو امن و امان کی بہتر صورتحال کا مظہر ہے۔

متعلقہ عنوان :